خاشقجی کا قتل ’انتہائی قابل مذمت‘ واقعہ ہے، سعودی ولی عہد
25 اکتوبر 2018
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل ایک ’انتہائی قابل مذمت‘ واقعہ ہے اور فتح انصاف کی ہو گی۔
اشتہار
دو اکتوبر کو استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے اور خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے موضوع پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا عوامی سطح پر یہ پہلا بیان تھا۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں تاہم امریکا کی جانب سے عائد کیے جانے والے ان الزامات کا ذکر نہیں کیا، جن میں کہا گیا تھا کہ اس قتل کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔
ریاض میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس کے موقع پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اس واقعے سے انقرہ حکومت کے ساتھ تعلقات میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’جب تک سعودی عرب کے بادشاہ سلمان ہیں، جب تک سعودی عرب کا ولی عہد محمد بن سلمان ہے اور جب تک ترکی کے صدر ایردوآن ہیں، ہمارے تعلقات خراب نہیں ہو سکتے۔‘‘
بدھ کے روز سرمایہ کاری کانفرنس میں اپنے خطاب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا، ’’یہ واقعہ تمام سعودی شہریوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے اور اسے کوئی جائز قرار نہیں دے سکتا۔ اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو جواب دہ ہونا پڑے گا اور فتح انصاف کی ہو گی۔‘‘
محمد بن سلمان کو خاشقجی معاملے میں شدید بین الاقوامی رد عمل اور تنقيد کا سامنا ہے، تاہم بدھ کے روز ولی عہد محمد بن سلمان نہایت پرسکون دکھائی دیے۔ اس بیان کے وقت محمد بن سلمان کے ساتھ اسٹیج پر لبنان کے وزیراعظم (نام زد) سعد حریری اور بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حماد بھی موجود تھے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
امریکا کی جانب سے اس واقعے کے تناظر میں منگل کی شب متعدد سعودی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے اعلان کیا گیا تھا، جس کے کچھ دیر بعد برطانوی حکومت کی جانب سے بھی یہی اقدام اٹھانے کا کہا گیا۔ فرانس کا کہنا ہے کہ پیرس حکومت اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی حمایت کرے گی۔ دوسری جانب سعودی رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے میں خود ملوث ہونے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے، انہوں نے اس کی ذمہ داری اپنے ماتحت حکومتی عہدیداروں پر منتقل کی ہے۔