خاشقجی کا قتل اور علاقائی طاقت کا توازن ترکی کی جانب
3 نومبر 2018
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترک صدر اس صورت حال میں مزید امریکی حمایت کا سہارا لے سکتے ہیں۔
اشتہار
بظاہر مشرق وسطیٰ میں ترکی بڑی شدت کے ساتھ ’مسلم بھائی چارے‘ کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب تک کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اس خطے کے سیاسی منظر میں تبدیلی نمودار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اب خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر بین الاقوامی دباؤ محسوس کیا جاتا ہے اور اس دباؤ کو بڑھانے میں ترکی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
سعودی قونصل خانے میں رواں برس دو اکتوبر جمال خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب کی شہرت کو کسی حد تک داغ دار کر دیا ہے۔ اس قتل میں مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پس پردہ ہونے کے الزامات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد سعوی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان کے تشخص پر انگلیاں اٹھ چکی ہیں اور ایسے میں ان کی سابقہ حیثیت کو بحال ہونے میں وقت درکار ہو گا۔
بین الاقوامی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کی ڈائریکٹر لینا خطیب کا خیال ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو ایک سنہرا موقع میسر آیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بجائے ترکی کو مسلم دنیا کا ایک نیا لیڈر بنا سکیں۔ خطیب کے مطابق خاشقجی سے پیدا ہونے والی صورت حال ایک جغرافیائی و سیاسی بحران ہے اور یہ ترکی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بحرانی کیفیت ہے، وہ اتنی پرزور نہیں کہ وہ سعودی اقتدار میں سے شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد کے منصب سے ہٹا سکے۔ اس تناظر میں ترکی کو بھرپور امریکی تائید اور حمایت درکار ہے۔ امریکی منشا کی صورت ہی میں سعودی ایوانِ اقتدار میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کی کالعدم قرار دی گئی مذہبی و سیاسی تحریک اخوان المسمون کو بھی ترکی کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اس کے حامی خیال کیے جاتے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور اُس کے اتحادی مصر و متحدہ عرب امارات اس تنظیم کے شدید مخالفین تھے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔