خاشقجی کا قتل: سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل
22 اکتوبر 2018
جرمن چانسلر میرکل نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے باعث سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی ہے جب کہ جرمن وزیر اقتصادیات نے مطالبہ کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے معاملے میں پورے یورپ کو متحد ہو جانا چاہیے۔
اشتہار
وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے سعودی عرب کے اس اعتراف کے بعد کہ جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ہلاک ہو گئے تھے، کہا ہے کہ ابھی تک ریاض حکومت ان حقائق کی تسلی بخش وضاحت نہیں کر سکی کہ سعودی حکمرانوں پر تنقید کرنے والے سعودی عرب ہی کے شہری اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خاشقجی کی موت قونصل خانے میں کن حالات میں اور کیوں ہوئی۔
چانسلر میرکل نے کہا کہ جب تک ریاض حکومت خاشقجی کی موت کے اسباب اور حالات کی مکمل اور تسلی بخش وضاحت نہیں کرتی، سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل رہے گی۔
سال رواں کے دوران برلن حکومت سعودی عرب کو 400 ملین یورو سے زائد مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے چکی ہے۔ یہ رقم قریب 462 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس طرح سعودی عرب شمالی افریقی ریاست الجزائر کے بعد اس سال جرمن ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
یورپی یونین کے متفقہ موقف کا مطالبہ
اسی دوران جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو میں پیر بائیس اکتوبر کو کہا کہ جمال خاشقجی کی ہلاکت اتنا بڑا اور اہم معاملہ ہے کہ پورے یورپ کو اس پر متحدہ ہو کر ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔
آلٹمائر نے کہا، ’’جرمن حکومت میں شامل جماعتیں اس بارے میں متفقہ رائے کی حامل ہیں کہ چونکہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ جمال خاشقجی کی موت کیوں اور کن حالات میں ہوئی، اس لیے سعودی عرب کو فی الحال جرمن ہتھیاروں کی ہر طرح کی فراہمی روک دی جائے۔‘‘
پیٹر آلٹمائر سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ جرمنی اور سعودی عرب کے درمیان اس عرب بادشاہت کو جرمن ساختہ ہتھیاروں کی فراہمی کے جو معاہدے ماضی میں طے پائے تھے، آیا ان پر عمل درآمد بھی روک دیا جائے گا اور اگر ہاں تو کب تک، اس پر جرمن وزیر اقتصادیات نے کہا، ’’جی ہاں، بہت ہی جلد۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
ساتھ ہی آلٹمائر نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کی رکن تمام دیگر ریاستوں کو بھی سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی روک دینا چاہیے تاکہ متحد ہوکر ریاض حکومت پر نتیجہ خیز دباؤ ڈالا جا سکے۔
دریں اثناء جرمنی کے کئی سرکردہ سیاستدانوں نے جرمنی کے بہت بڑے صنعتی گروپ سیمنز کے سربراہ جو کیزر سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سیمنز بھی سعودی عرب میں اس بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت نہ کرے، جو اسی ہفتے ہو رہی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ کا اعتراف
جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے اور اس کے بعد سے مسلسل لاپتہ تھے۔ پھر کل اتوار اکیس اکتوبر کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ خاشقجی قونصل خانے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
عادل الجبیر نے سعودی حکمرانوں کے ناقد اس صحافی کی ہلاکت کو ’ایک بہت بڑی اور سنگین غلطی‘ قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ خاشقجی کی ہلاکت چند افراد کی ’انفرادی مجرمانہ کارروائی‘ کا نتیجہ تھا، جس کا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اذیت ناک تفصیلات
جمال خاشقجی کے قتل کی جو تفصیلات ترک میڈیا میں سامنے آئی ہیں اور جن میں ترک تفتیشی ماہرین کے پاس دستیاب حقائق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان کے مطابق خاشقجی کو سعودی کمانڈوز کی ایک ایسی 15 رکنی ٹیم نے قتل کیا، جو دو اکتوبر کو خاص طور پر استنبول پہنچی تھی۔ ان سعودی اہلکاروں کو علم تھا کہ اس روز خاشقجی کو استنبول کے اس سعودی قونصل خانے آنا تھا۔
انہی میڈیا رپورٹوں کے مطابق 59 سالہ خاشقجی کو اپنی شادی کے لیے سعودی قونصل خانے سے ایک سرکاری دستاویز لینا تھی۔ لیکن جب وہ سفارتی مشن کے اندر پہنچے تو وہاں پہلے ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں، پھر انہیں قتل کر کے ان کے لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ سعودی حکام ابھی تک یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ خاشقجی کی لاش کہاں ہے یا اس کا کیا بنا۔
م م / ع ت / روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔