خاشقجی کا قتل: سعودی مقدمے کی کھلے بندوں سماعت کا مطالبہ
28 مارچ 2019
اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خوفناک قتل کے مقدمے میں گیارہ مشتبہ ملزمان کے خلاف سعودی عرب میں کی جانے والی عدالتی سماعت کو پبلک کیا جائے۔
اشتہار
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے جمعرات اٹھائیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کی ایک اعلیٰ اہلکار اور انسانی حقوق کی ماہر نے آج مطالبہ کیا کہ قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب میں اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی جس راز داری سے کی جا رہی ہے، وہ بین الاقوامی معیارات سے قطعاﹰ مطابقت نہیں رکھتی اور یہ سماعت خفیہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بات اقوام متحدہ کی ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے موضوع پر خصوصی وقائع نگار ایگنیس کالامارد نے جنیوا سے اپنے جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہی۔ ایگنیس کالامارد اس بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، جو گزشتہ برس اکتوبر میں ترک شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ریاض حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کی چھان بین کر رہی ہے۔
کالامارد نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان تمام 10 مشتبہ ملزمان کے نام بھی جاری کرے جنہیں اس قتل کے بعد شروع میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتائے کہ ان دس مشتبہ ملزمان کا کیا بنا۔
ایگنیس کالامارد نے اپنے اس بیان میں کہا، ’’یہ سمجھتے ہوئے سعودی حکومت شدید غلطی کر رہی ہے کہ اس مقدمے کی اس طرح کارروائی، جیسے وہ اب تک کی جا رہی ہے، بین الاقوامی برادری کو مطمئن کر دے گی۔‘‘
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی کے اب تک معلوم طریقہ کار کے تحت نہ تو مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کو کسی بھی طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو ان نتائج کے عالمی معیار کے مطابق ہونے کے بارے میں مطمئن کیا جا سکتا ہے، جو اس مقدمے کے اختتام پر حاصل کیے جائیں گے۔
جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں سعودی دفتر استغاثہ نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا کہ اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ ان ملزمان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔
ان ملزمان میں مبینہ طور پر پانچ ایسے مشتبہ افراد بھی شامل ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ کل گیارہ میں سے ان پانچ ملزمان پر یہ الزامات ہیں کہ انہوں نے یا تو جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا تھا یا پھر وہ ذاتی طور پر اس خوفناک جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک سابق اعلیٰ مشیر سعود القحطانی کو اسی قتل کے بعد ان کے عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا تھا۔
وہ ان گیارہ مشتبہ مزمان میں شامل نہیں ہیں۔ جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اس بارے میں گزشتہ اتوار کو روئٹرز کو بتایا تھا کہ ریاض حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس قتل کے مجرمان کو سزائیں دے گی۔ لیکن اس کے باوجود اب تک اس مقدمے کی کارروائی کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
م م / ع ح/ روئٹرز
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟