’خاشقجی کو قونصل خانے میں داخل ہوتے ہی قتل کر دیا گیا تھا‘
31 اکتوبر 2018
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ترک شہر استنبول کے مستغیث اعلیٰ کے مطابق قونصل خانے میں داخل ہوتے ہی خاشقجی کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اشتہار
استنبول کے مستغیث اعلیٰ عرفان فیدان کے دفتر کی جانب سے آج بدھ کو بتایا گیا، ’’پہلے سے تیار کیے گئے منصوبے کے عین مطابق جمال خاشقجی کو اسی وقت گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس لمحے وہ استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے۔‘‘ اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ قتل کے بعد مقتول کی لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے اور پھر انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔
فیدان کے دفتر نے مزید بتایا کہ سچ سامنے لانے کے اچھے اور سنجیدہ ترک ارادوں کے باوجود سعودی مستغیث اعلیٰ سعود الموجب کے ساتھ اس موضوع پر ہونے والی بات چیت کا فی الحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سعود الموجب ایک ہفتے تک استنبول میں قیام کے بعد آج بدھ کو واپس سعودی عرب روانہ ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M Yildrim
دو اکتوبر کو جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بعد سے ترک حکام کی جانب سے دو صفحوں پر مبنی یہ پہلا سرکاری بیان ہے، جس میں اس سعودی صحافی کے گلا گھونٹ کر قتل کیے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔
انقرہ حکومت چاہتی ہے کہ خاشقجی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ان اٹھارہ افراد کو ترکی کے حوالے کیا جائے، جو سعودی حکام کی حراست میں ہیں۔ ساتھ ہی یہ واضح کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس قتل اور لاش کو ٹھکانے لگانے کے احکامات کس نے دیے تھے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ ریاض میں حکام ان مقامی افراد کے نام بھی بتائیں، جنہوں نے استنبول میں خاشقجی کی لاش کو غائب کرنے میں تعاون کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق سعودی مستغیث اعلیٰ نے عرفان فیدان اور دیگر ترک حکام کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ دوران تفتیش جمع کردہ شواہد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔