1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خالدہ ضیاء کا حامیوں کو ڈھاکا کی جانب مارچ کا حکم

عاطف توقیر25 دسمبر 2013

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور موجودہ اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ کے شروع میں مجوزہ عام انتخابات رکوانے کے لیے ڈھاکا کی جانب بڑا عوامی مارچ کریں۔

تصویر: picture-alliance/AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خالدہ ضیاء کی جانب سے اپوزیشن کارکنوں کو عوامی مارچ کی ہدایت دینے سے ملک میں پہلے سے موجود سیاسی بحران مزید شدید ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لیے عبوری حکومت قائم کرے، تاہم حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے اس مطالبے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ وہ خود عام انتخابات منعقد کروا کے اقتدار اگلی جمہوری حکومت کو منتقل کرنا چاہتی ہے۔

اکتوبر میں شروع ہونے والے ان سیاسی مظاہروں میں اب تک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اب بھی اپوزیشن مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خالدہ ضیاء کی اس کال کے بعد دارالحکومت ڈھاکا میں تشدد کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ڈھاکا میں پولیس کی ایک وین پر پھینکے جانے والے ایک پٹرول بم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جب کہ دیگر دو زخمی ہو گئے۔

بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی روز بروز بڑھ رہی ہےتصویر: DW

خالدہ ضیاء نے عوامی مارچ کی کال دیتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا، ’میں تمام شہریوں سے کہتی ہوں کہ وہ دسمبر کی 29 تاریخ کو ڈھاکا کی جانب مارچ کریں۔ اس مارچ کا مطلب جعلی انتخابات کو نہ اور جمہوریت کو ہاں کہنا ہو گا۔‘

دارالحکومت ڈھاکا میں اپنے حامیوں سے خطاب میں اپوزیشن رہنما نے کہا کہ مظاہرین کی کمیٹیاں ہر شہر اور ہر گاؤں میں ان انتخابات کو ناکام بنا دیں گی۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر کہا گیا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد کرائے گی۔ ادھر زیادہ تر ممالک نے ان انتخابات کی نگرانی کے لیے اپنے مبصرین نہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

یورپی یونین اور دولت مشترکہ کے ممالک کی جانب سے انتخابات کی نگرانی کے لیے مبصرین نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد پیر کے روز امریکا نے بھی ان انتخابات کے لیے اپنے نمائندے تعینات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد بنگلہ دیش کی تین سو رکنی پارلیمان میں نصف سے زائد سیٹوں پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں الیکشن سے پہلے ہی کامیاب ہو چکی ہیں۔ اسی تناظر میں امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ان انتخابات کی صحت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تکنیکی طور پر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں انتخابات سے قبل ہی 154 نشستیں جیت چکی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے ہی اپنی نئی حکومت بنا سکتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں