القاعدہ کی جزیرہ نماعرب میں سرگرم شاخ نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے اپنے رہنما قاسم الریمی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
جہادی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی انٹلیجنس ایجنسی سائٹ(SITE) نے بتایا کہ القاعدہ جزیرہ نماعرب (اے کیو اے پی) نے اپنے رہنما قاسم الریمی کی ہلاکت کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے اور خالد سعید بن عمر باطرفی کو اپنا نیا رہنما مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سائٹ نے بتایا کہ یہ اعلان القاعدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک آڈیو میں جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے مذہبی امور کے نگران حامد بن حمود التمیمی نے کیا۔
سائٹ کے مطابق ”تمیمی نے اپنی تقریر میں جہاں قاسم الریمی کے حالات زندگی اور جہاد کے حوالے سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا وہاں اس کا بھی اعلان کیا کہ اب خالد سعید باطرفی نئے رہنما ہوں گے۔“ القاعدہ کے اندرونی حلقے اور دیگر قریبی رفقا القاعدہ کی ذیلی شاخ کے نئے سربراہ کو ابو مقداد الکندی کی عرفیت سے بھی پکارتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ فروری کو اعلان کیا تھا کہ قاسم الریمی کی یمن میں انسداد دہشت گردی کے ایک آپریشن کے دوران ہلاکت کا بتایا تھا۔ القاعدہ نے باضابطہ طور پر اس ہلاکت کی تصدیق نہیں کی تھی۔ جہادی تنظیم نے اتوار تیئیس فروری کو قاسم الریمی کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
امریکہ جزیرہ نما عرب میں فعال اس تنظیم کو اسامہ بن لادن کے قائم کردہ دہشت گردی کے نیٹ ورک میں ایک انتہائی خطرناک شاخ قرار دیتا ہے۔ جزیرہ نما عرب سے تعلق رکھنے والے سعودی فوجیوں کے فلوریڈا کے بحری تربیتی اڈے پر ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں ایک سعودی افسر نے تین فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
گذشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک یمن میں اس تنظیم نے کئی مقامات پر زوردار حملے بھی کیے۔
ج ا / ع ح (اے ایف پی‘ ریوٹرز)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔