1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتامریکہ

خالصتانی رہنما کے قتل کی سازش: الزامات 'انتہائی سنجیدہ ہیں'

1 دسمبر 2023

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں ملوث بھارتی شہری کے خلاف الزامات کو واشنگٹن 'بہت سنجیدگی سے' لے رہا ہے اور 'ہمیں اس بارے میں بھارتی تفتیش کے نتائج کا انتظار' ہے۔

خالصتانی پرچم
بھارتی ریاست پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہے اور خاطلصتانی تحریک سکھوں کے لیے بھارت سے آزاد ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لیےجد و جہد کرتی رہی ہے تصویر: Jennifer Gauthier/REUTERS

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے محکمہ انصاف کی جانب سے نیویارک میں ایک سکھ رہنما کے ناکام قتل کی سازش میں ملوث ایک بھارتی شہری کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے بارے میں کہا کہ واشنگٹن ان الزامات کو ''بہت سنجیدگی سے'' لیتا ہے۔

سکھ رہنما کے قتل کی سازش: بھارتی سرکاری اہلکار ملوث، امریکہ

بلنکن اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں تھے، جہاں انہوں نے اس حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سکھ رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کے بارے میں بھارت کی طرف سے شروع کی جانے والی تحقیقات کا خیر مقدم کیا۔

خالصتان تنازع: کینیڈا نے 41 سفارت کاروں کو بھارت سے واپس بلا لیا

واضح رہے کہ امریکی حکام نے نیویارک میں مقیم ایک ممتاز سکھ علیحدگی پسند لیڈر کے قتل کے منصوبے میں ایک بھارتی شہری کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ محکمہ انصاف کے مطابق بھارتی انٹیلیجنسکا ایک سینیئر فیلڈ افسر بھی ناکام قتل کی اس سازش میں ملوث تھا۔

کیا سکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نظریہ اب بھی زندہ ہے؟

ان الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی بھارت نے اس کی تفتیش کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔

سکھ رہنما کا قتل: کینیڈا نے الزامات کا اعادہ کیا، امریکہ کو بھی گہری تشویش

امریکہ نے کیا کہا؟

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا، ''میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے ہم بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اسے براہ راست بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھایا۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ اچھا اور مناسب بھی ہے اور ہم اس تفتیش کے نتائج دیکھنے کے منتظر ہیں۔''

بھارتی شہری کینیڈا کے کچھ حصوں میں نہ جائیں، نئی دہلی حکومت

 اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کچھ اسی طرح کی باتیں کہیں، تاہم انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ''بھارت اب بھی ایک اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور ہم بھارت کے ساتھ اس اسٹریٹیجک شراکت داری کو بہتر اور مضبوط کرنے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس معاملے کو بھی بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان الزامات اور اس کی تحقیقات کو بھی ہم بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔''

ابھی حال ہی میں کینیڈا نے اپنی سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما نجر کے قتل کے واقعے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھاتصویر: Chris Helgren/REUTERS

کربی نے مزید کہا، ''ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ بھارت بھی اس کی تحقیقات کے لیے اپنی کوششوں کا اعلان کرکے اسے سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان مبینہ جرائم کے لیے جو بھی ذمہ دار ہوں، انہیں مناسب طور پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔''

الزامات کیا ہیں؟

امریکی محکمہ انصاف نے جس شخص پر قتل کی سازش کا الزام لگایا ہے، اس کا نام نکھل گپتا بتایا گیا ہے اور محکمہ انصاف کے مطابق وہ شخص بھارتی انٹیلیجنس کے ایک سینیئر فیلڈ افسر کے ساتھ مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

البتہ بھارت کے سرکاری اہلکار کا نام نہیں بتایا گیا، تاہم کہا گیا ہے کہ وہ نئی دہلی میں ایک سرکاری دفتر میں دوسروں کے ساتھ کام کرتا ہے اور ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کے ناکام منصوبے میں وہ بھی شامل تھا۔

وفاقی دفتر استغاثہ کا الزام ہے کہ اس بھارتی اہلکار نے گپتا کے ساتھ بار بار رابطہ کیا اور انہوں نے سکھ سیاسی رہنما گروپتونت پنون کے قتل کے معاوضے کے طور پر ایک لاکھ ڈالر میں سے پیشگی ادائیگی کے طور پر گپتا کو پندرہ ہزار ڈالر دیے تھے۔

باون سالہ گپتا، جو اس وقت جمہوریہ چیک میں زیر حراست ہیں، کو امریکہ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ انہیں مبینہ سازش کے سلسلے میں امریکہ میں کرائے کے قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔

وفاقی استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ ملزم بھارتی حکومت کی ایما پر کام کر رہا تھا اور سکھ رہنما کے قتل کا انتظام کرنے کے لیے ایک دوسرے بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

امریکہ کی جانب سے یہ انکشافات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں، جب کینیڈا نے اپنی سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے واقعے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک سفارتی تنازع اب بھی جاری ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں