امریکہ: خالصتان کے حامیوں کی بھارتی قونصل خانے میں توڑ پھوڑ
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
4 جولائی 2023
امریکہ نے سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے میں کی گئی توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ ادھر بھارت نے خالصتانیوں کی مجوزہ 'فریڈم ریلی' کے پیش نظر کینیڈا کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے۔
اشتہار
امریکہ کے شہر فرانسسکو میں خالصتان کے حامیوں نے بھارتی قونصل خانے میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ہی اس میں آگ لگانے کی کوشش کی جبکہ کینیڈا میں خالصتانی تحریک کے حامیوں نے بھارتی سفارت کاروں پر حملے کی دھمکی دی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ امریکہ میں سفارتی سہولیات یا غیر ملکی سفارت کاروں کے خلاف توڑ پھوڑ یا تشدد ایک مجرمانہ جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''امریکہ سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے کے خلاف مبینہ توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کی کوشش کی شدید مذمت کرتا ہے۔''
اس سے پہلے خالصتان کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ اتوار کی صبح کس طرح قونصل خانے کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ویڈیو کے ساتھ یہ الفاظ بھی لکھے تھے کہ ''تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے۔''
اس ویڈیو میں حال ہی میں کینیڈا میں رہنے والے 'خالصتان ٹائیگر فورس' کے ایک اہم رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی موت کا بھی ذکر ہے، جنہیں گرودوارے میں ہی بعض نہ معلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا میں سرگرم خالصتانی تحریک کے ایک روح رواں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے اور وہ باقاعدگی سے بھارت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی قیادت کرتے رہے تھے۔
بھارت نے انہیں دہشت گرد قرار دے رکھا تھا اور ان کے خلاف ریاستی اور مرکزی سطح پر متعدد مقدمات بھی درج تھے۔ سن 2018 میں جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کا دورہ کیا تھا، تو اس وقت انہیں نئی دہلی کو مطلوب افراد کی ایک طویل فہرست سونپی گئی تھی۔ اس فہرست میں ہردیپ سنگھ نجر کا نام بھی شامل تھا۔
کینیڈا میں خالصتانیوں کی 'فریڈم ریلی'
بھارت نے اوٹاوا میں بھارتی ہائی کمیشن اور ٹورنٹو اور وینکوور میں 8 جولائی کو دو قونصل خانوں کے باہر خالصتان کی حامی تنظیموں کی جانب سے ہونے والے احتجاج سے پہلے نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کیا اور اپنے سفارت کاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ کینیڈا میں سرگرم خالصتانی تحریک کے حامیوں نے بعض دھمکی آمیز پوسٹر شائع کیے ہیں، جس میں کئی بھارتی سفارت کاروں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان پوسٹروں پر نعرہ درج ہے ''بھارت کو قتل کرو''، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے ذمہ دار بھارتی سفیر ہیں۔
واضح رہے کہ خالصتانی کے حامیوں نے آئندہ آٹھ جولائی کو کینیڈا کے مختلف شہروں میں 'فریڈم ریلی' کے نام سے ایک بڑے احتجاجی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر بھارتی ہائی کمیشن اور قونصل خانوں کے باہر پرتشدد مظاہروں کا خطرہ ہے۔
اشتہار
کینیڈا کا رد عمل
ادھر کینیڈا نے آزادی سے متعلق اس ریلی سے پہلے گردش کرنے والے پوسٹرز کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سفارت کاروں کی حفاظت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے ایک بیان میں کہا: ''کینیڈا سفارت کاروں کی حفاظت کے حوالے سے ویانا کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ کینیڈا آٹھ جولائی کو ہونے والے احتجاج کے حوالے سے آن لائن گردش کرنے والے کچھ پروموشنل مواد، جو کہ ناقابل قبول ہیں، کی روشنی میں بھارتی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں بھی ہے۔''
بیان میں مزید کہا گیا: ''ہم جانتے ہیں کہ چند لوگوں کے اعمال پوری کمیونٹی یا کینیڈا کی نمائندگی نہیں کرتے۔''
بھارت کی تشویش
بھارت نے ان مبینہ پوسٹروں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ خالصتانیوں کی بنیاد پرست سوچ بھارت اور اس کے شراکت دار ممالک کے ساتھ تعلقات کے لیے اچھی بات نہیں ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا تھا، ''ہم پہلے ہی اپنے پارٹنر ممالک جیسے کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا، جہاں کبھی کبھی خالصتانی سرگرمیاں ہوتی ہیں، سے درخواست کر چکے ہیں کہ خالصتانیوں کو جگہ نہ دیں۔ کیونکہ ان کی بنیاد پرست، انتہا پسند سوچ نہ تو ہمارے لیے اچھی ہے، نہ ان کے لیے اور نہ ہی ہمارے تعلقات کے لیے۔''
خالصتانی تحریک کیا ہے؟
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم لاتے ہیں۔
بھارتی ریاست پنجاب تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو آبادی پر مشتمل ہے۔ اس ریاست کو 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں خالصتان کے حامیوں کی ایک پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔