1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

16 اگست 2020

افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ ہمارا یہ مہذب معاشرہ خواجہ سراؤں کو سکون سے بھیک مانگنے کا حق بھی نہیں دیتا اور انہیں جبری طور پر جنسی کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ طاہرہ سید کا بلاگ

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

پدر سری نظام یا مادر سری نظام؟ نہیں نہیں پدرسری نظام کی جڑیں تو اس معاشرے میں بہت گہری ہیں اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم اپنے حقوق لے کر رہیں گے، آنے والا وقت مادر سری نظام کا ہے، کوئی ہمیں ہمارے حقوق لینے سے نہیں روک سکتا۔ پھر ایک اور آواز ابھرتی ہے کہ نہیں جناب یہ دونوں ہی نظام معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ مرد اور عورت اس معاشرے کا اٹوٹ انگ ہیں اس لیے دونوں کو برابر کے حقوق ملنے چاہییں۔ ایسی بہت سی آوازیں ہم انسانی تہذیب کے آغاز سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ فی زمانہ تحریک نسواں اپنے زوروں پر ہے اور خواتین اپنے بہت سے حقوق منواتی نظر آرہی ہیں۔ بے شمار شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر نہ صرف اپنے جینے کا ڈھب تبدیل کرچکی ہیں بلکہ ماضی قریب میں مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جانے والے شعبہ جات میں بھی بہترین کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ پاکستان میں اس کی ایک بہترین مثال پاک فضائیہ میں جنگی جہازوں کی اڑان جیسے خالص مردانہ شعبہ تک خواتین کی رسائی ہے۔ اس ضمن میں کئی نئے قوانین بھی مرتب کر لیے گئے ہیں، جن کی رو سے خواتین نہ صرف اپنے حقوق حاصل کر پاتی ہیں بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی جنسی زیادتی یا صنفی امتیاز کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل کر چکی ہیں۔

اس تمام صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ سینہ چوڑا کر کے یہ بات کہتے ہوں گے کہ جی ہاں، آج ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے ایک بار پھر غور کریں، کیا واقعی ہمارے معاشرے میں تمام اصناف کو یکساں حقوق حاصل ہو گئے ہیں؟ کیا واقعی اس معاشرے نے سب کو یکساں قانونی حقوق دے دیے ہیں؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ اس معاشرے میں تمام اصناف کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع حاصل ہیں؟

ہماری اکثریت یقیناﹰ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہونے والی بحث اور حقوق و فرائض کی جنگ کا جائزہ لے کر یہ بات طے کرنے کی کوشش کرے گی کہ کون حقوق حاصل کر چکا اور کس کو ابھی مزید اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے کا ایک اور طبقہ بھی ہے جنہیں ہم خواجہ سرا تو شاید ہی کبھی بولتے ہوں، اس سے ہٹ کر بہت سے تحضیک آمیز ناموں سے ضرور نوازتے رہتے ہیں۔ سڑکوں پر جا بجا رنگ برنگے کپڑے پہنے گھومتے پھرتے، بھیک مانگتے خواجہ سرا اکثر و بیشتر ہر ایک کی تحضیک اور مذاق کا نشانہ بنتے نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک، ہر عمر کے لوگوں کے ہاتھوں جنسی درندگی سمیت ہر قسم کے مذاق کا نشانہ بنتی یہ مخلوق جنہیں ہم شاید انسانیت کے درجے پر فائز ہی نہیں کرتے۔

آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ یہ طبقہ جنہیں ہم انسان سمجھنا گوارہ نہیں کرتے انتہائی حساس طبیعت کا مالک ہے اور ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں 41 فیصد خواجہ سرا اپنی زندگی میں خودکشی کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے مطابق انسانوں کے ذہنی امراض کی وجوہات میں اس معاشرے کی طرف سے ٹھکرایا جانا، آگے بڑھنے کے مواقع کا نہ ہونا، جنسی تشدد اور معاشرے کا امتیازی سلوک سرفہرست ہیں۔ جو ایک خوجہ سرا کے لیے ہر دن کا منظر نامہ ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اس معاشرے کی طرف سے انتہائی نفرت انگیز سلوک انہیں مختلف بیماریوں کی طرف دھکیل دیتا ہے اور پھر 'مرے پہ سودُرّے‘ کے مترادف معاشرے کی یہ ٹھکرائی ہوئی مخلوق ہسپتالوں میں بھی قابل ذکر توجہ اور علاج کی سہولیات حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔ یہ لوگ اپنے گھروں سے اپنے خاندان سے دور آپس میں مل کر رہتے ہیں۔ انہیں اپنے خاندان سے کسی بھی قسم کی اخلاقی یا مالی طور پر حمایت حاصل ہونا تو دور کی بات انہیں ایک بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان بدنما رویوں کو سہتے سہتے یہ بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر گھر والے انہیں خود ہی جانے کا کہہ دیتے ہیں۔ خاندان کی سپورٹ کے بغیر تعلیم حاصل کرنا یا کسی ہنر کا سیکھنا ناممکن سی بات ہے اس صورتحال میں بھیک مانگنا ان کے پاس واحد حل ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ابنارمل تو ہم لوگ ہیں

ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار جنگیں، تنازعات اور انسانی ہوس بھی

افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ ہمارا یہ مہذب معاشرہ انہیں سکون سے بھیک مانگنے کا حق بھی نہیں دیتا اور انہیں جبری طور پر جنسی کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ معاشرے کی یہ ٹھکرائی ہوئی مخلوق محض ہمارے لیے 'تفنن طبع‘ کا ذریعہ ہی بنتی ہے۔ اور ان کی اس تذلیل کو ہم اپنے قہقہوں میں اڑاتے ہوے شاید ہی کبھی ان کے محسوسات کا سوچتے ہوں۔ البتہ یہ سستی تفریح اور گھٹیا مذاق ہمیں ہمارے انسان ہونے کے درجے سے ضرور گرا دیتے ہیں۔ انسانیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے حقوق کی جنگ میں فرائض کا ادراک بھی معنی رکھتا ہے۔ معاشرے کا اس حد تک اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے کہ خواجہ سراؤں کا نام کسی کو گالی دینے یا کسی کی مردانگی کو للکارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن صنفی آزادی اور صنفی برابری کے نعروں میں ان کا نام کہیں نہیں آتا۔ اور نہ ہی انہں باہر نکل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا حق دیا جاتا ہے۔ ایک کچلے ہوئے طبقہ کے سروں پر کھڑے ہوکر اپنے تہذیب یافتہ ہونے کا اعلان کرتا یہ معاشرہ انسانیت کے درجے پر فائز ہونے کا حق بھی نہیں رکھتا۔

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی مختلف انسانی معاشروں نے رنگ اور نسل کی بنیاد پر نا صرف اچھائی برائی کے معیارات قائم کیے بلکہ ایک دوسرے کے حقوق ڈنکے کی چوٹ پر غضب کیے۔ ان تہذیب یافتہ معاشروں میں انسانوں نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو صرف رنگ کی بنیاد پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شعور نے آگہی کی منزلیں طے کیں اور بالآخر غلامی کا ادارہ تو اپنا وجود کھو بیٹھا لیکن انسانی شعور اتنا پختہ پھر بھی نہ ہوا کہ رنگ، نسل اور صنف کی تقسیم سے آزاد معاشرہ قائم ہو پاتا۔ عالمی انسانی حقوق کی بے شمار تنظیمیں سرگرم عمل تو نظر آتی ہیں لیکن ہماری نگاہیں فی الحال معاشرے پر ان سرگرمیوں کا کوئی دیرپا اثر دیکھنے سے قاصر ہیں۔

دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب جب کسی طبقے یا گروہ کو طاقت اور برتری کے زعم میں کچلا گیا تو اس طبقے سے چند نام ضرور ایسے اٹھے جن کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس تناظر میں پاکستان کے خواجہ سراؤں نے بھی ایسے نام پیدا کیے جو دوسروں کے لیے یقینا مشعل راہ ہیں۔ حال ہی میں جولی اعوان نامی ایک پاکستانی خواجہ سرا کے خیالات جاننے کا موقع ملا جو کہ پوری دنیا میں اپنے طبقے کی نا صرف نمائندگی کرچکی ہیں بلکہ ہر فورم پر اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھاتی رہتی ہیں۔ انتہائی بہادری کے ساتھ اتنے نامساعد حالات میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے علاوہ اپنے ساتھیوں کی فلاح و بہبود کے کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح اسی طبقے کا ایک اور چمکتا ستارہ ببلی ملک ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے یہ ثابت کیا کہ خواجہ سرا بغیر ناچ گانا دکھائے عام لوگوں کی طرح محنت کش زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ ببلی ملک انتہائی باصلاحیت اور جی دار خواجہ سرا ہیں جنہوں نے این سی اے میں ایک چھوٹی سی ٹک شاپ کا آغاز کیا اور بہت سے دوسرے خواجہ سراؤں کو ملازم رکھ کر ان کے لیے روزگار کا ذریعہ بنیں لیکن ہمارے معاشرتی اصولوں کے ٹھیکیداروں کو ان کی یہ کاوش ایک آنکھ نہ بھائی اور ان کو اپنے تمام ملازمین سمیت بے دخل کر دیا گیا۔ اس مہذب معاشرے کی طرف سے دیا گیا یہ دھکا انہیں گرا تو نہ سکا البتہ انہیں آگے بڑھانے کا سبب ضرور بنا۔ ببلی ملک کا سفر جاری رہا اور بالآخر ایک تنظیم کی صورت میں سامنے آیا۔ وجود نامی یہ تنظیم ہر محاذ پر خواجہ سراؤں کے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے۔

اسی مظلوم کچلے ہوئے طبقے کا ایک اور چمکتا دمکتا ستارہ عائشہ مغل نامی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے حقیقی معنوں میں یہ ثابت کیا کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘۔

عائشہ مغل وہ پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے سرکاری وفد کا حصہ بن کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ جنیوا میں ہونے والے یو این کنونشن کے پلیٹ فارم سے صنفی مساوات کے حوالے سے آواز اٹھائی۔ عائشہ مغل کی جدوجہد کچھ اس طرح رنگ لائی کہ پاکستان میں خواجہ سرا طبقے کے حقوق کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی جس کا سہرا یقینا عائشہ مغل کے سر جاتا ہے۔ اس تمام قانون سازی کے عمل میں ان کا کردار کلیدی رہا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے کافی آگاہی پھیلائی گئی ہے جس کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ پچھلے دنوں جی سی یو لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر اصغر زیدی نے خواجہ سراؤں کے لیے یونیورسٹی میں نشستیں مخصوص کرنے کا اعلان بھی کیا۔ جو یقیناﹰ بہتری کی طرف ایک اور قدم ہے۔ لیکن جدوجہد کا یہ سفر ابھی جاری ہے اور آگے بہت سی منزلیں طے کرنا باقی ہیں اصل کامیابی تو اس وقت ہوگی جب ہم اپنے معاشرے میں رویوں اور سوچ کو تبدیل کر پائیں۔ قدرت نے بے شمار صلاحیتیں یقیناً اس طبقہ کو بھی ودیعت کی ہیں لیکن سماجی رویوں نے انہیں عضو معطل کی طرح معاشرے کا ایک غیر فعال رکن بنا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے یا نادرا میں خواجہ سراؤں کی شناخت کا کالم بڑھانے یا پھر یونیورسٹیز میں نشستیں مخصوص کر دینے سے بات نہیں بنے گی۔ وقت تب تک نہیں بدلے گا جب تک ہم اسکول لیول پر بچوں میں جینڈر اسٹڈی متعارف نہیں کرواتے۔ اگر بچپن سے ہی اس بات کی تعلیم دی جائے کہ ایک تیسری صنف بھی اسی معاشرے کا فعال حصہ ہے تو وہ اسے ایک عام معمول کی بات سمجھیں گے اور اس طبقے کو آگے بڑھنے کے مواقع برابری کی بنیاد پر ملیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں