خامنہ ای نے مظاہروں سے متعلق کہا، ’کچھ بھی کرو، یہ سب روکو‘
23 دسمبر 2019
ایرانی حکومتی اہلکاروں نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ماہ ہونے والے عوامی مظاہروں میں ڈیڑھ ہزار تک مظاہرین ہلاک ہوئے۔ سپریم لیڈر خامنہ ای نے یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’اسلامی جمہوریہ خطرے میں ہے۔ کچھ بھی کرو اور یہ سب کچھ روکو۔‘‘
اشتہار
اسلامی جمہوریہ ایران میں نومبر کے وسط میں جو پرتشدد عوامی احتجاج شروع ہوا تھا، اس میں شہری ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار شروع سے ہی بہت متنوع اور کم بتائے گئے تھے۔ پندرہ نومبر کو شروع ہونے والے یہ عوامی احتجاجی مظاہرے ایران کے مختلف شہروں میں تقریباﹰ دو ہفتوں تک جاری رہے تھے۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
پھر اسی ماہ یعنی دسمبر کی 16 تاریخ کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ ایرانی حکومت نے ان مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد اصل سے بہت ہی کم بتائی تھی۔
ایمنسٹی کے مطابق ان پرتشدد مطاہروں میں کم از کم بھی 306 ایرانی شہری مارے گئے تھے۔ اس کے بعد امریکی دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ اسے مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور مجموعی طور پر یہ تعداد ایک ہزار تک ہو سکتی تھی۔
ڈیڑھ ہزار تک شہری ہلاکتیں
اس بارے میں ایرانی وزارت داخلہ کے تین مختلف اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتائی گئی تفصیلات کی روشنی میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان دو ہفتوں میں 1500 تک ایرانی شہری مارے گئے تھے۔ یہ بات اس لیے بہت بڑا انکشاف ہے کہ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے بتائی گئی یہ تعداد اس سے بیسیوں گنا زیادہ ہے، جس کا اعلان ایرانی حکومت نے سرکاری طور پر کیا تھا۔
تہران میں ملکی وزارت داخلہ کے ان حکام کے بقول ان ڈیڑھ ہزار ہلاک شدگان میں سے کم از کم 17 ٹین ایجر تھے جبکہ مرنے والوں میں 400 کے قریب خواتین بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ مرنے والے صرف مظاہرین ہی نہیں تھے بلکہ ان میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے بہت سے ارکان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مجموعی طور پر زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی تھی۔
اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کے سب سے ہلاکت خیز مظاہرے
روئٹرز نے اپنی ایک بہت تفصیلی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران میں چند ہفتے پہلے کے یہ احتجاجی مظاہرے اتنے شدید ہو گئے تھے کہ ان کی وجہ سے ملکی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
اسی وجہ سے تہران میں سرکردہ حکومتی عہدیداروں اور متعدد اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں کے ایک اجلاس میں 17 نومبر کو آیت اللہ علی خامنہ ای نے حکام کو مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا تھا۔
اس امر کی ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے علاوہ خامنہ ای کے بہت قریبی حلقوں میں شامل تین مختلف ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ یہ مظاہرے ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے لے کر آج تک کے سب سے ہلاکت خیز اور خونریز ترین عوامی مظاہرے تھے۔
مظاہرین کا اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا مطالبہ
تہران میں ایرانی حکومت کے ایک ترجمان اور اقوام متحدہ میں ایران کے سفارتی مشن کے اعلیٰ نمائندوں سے جب اس بارے میں تصدیق کے لیے کہا گیا کہ آیا سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سترہ نومبر کو حکومت کو ایسے کسی کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا، تو تہران اور نیو یارک میں ایرانی نمائندوں نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ان مظاہروں کے دوران تہران اور چند دیگر شہروں میں مظاہرین نے نہ صرف خامنہ ای کی تصاویر جلائی تھیں بلکہ ماضی کے ملکی بادشاہ کے جلاوطن بیٹے رضا پہلوی کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ اور مذہبی رہنماؤں کو اقتدار سے علیحدہ کیا جائے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان مظاہروں کے پھیلتے جانے اور شدید تر ہوتے جانے کے بعد خامنہ ای نے اعلیٰ ملکی نمائندوں کے ساتھ جو ملاقاتیں کی تھیں، ان میں سپریم لیڈر کی ملکی صدر حسن روحانی کے علاوہ ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں اور وہ مشورے بھی جو انہوں نے سلامتی کے مشیروں کے ساتھ کیے تھے۔
'جو بھی کرنا پڑے، کرو اور یہ سب کچھ روکو‘
آیت اللہ علی خامنہ ای، جن کی عمر اس وقت 80 برس ہے اور جو ایران میں کسی بھی اہم ملکی، سیاسی اور مذہبی معاملے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے والی اعلیٰ ترین شخصیت ہیں، نے اس بارے میں غصے کا اظہار کیا تھا کہ نومبر کے دوسرے نصف حصے کے آغاز سے ہی احتجاجی مظاہرین نے نہ صرف خامنہ ای کی تصاویر جلائی تھیں بلکہ ساتھ ہی انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کے ایک مجسمے کو نقصان بھی پہنچایا تھا۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ تب علی خامنہ ای نے ملکی حکام سے کہا، ''اسلامی جمہوریہ خطرے میں ہے۔ جو کچھ بھی کرنا پڑے، وہ کرو اور یہ سب کچھ ختم کراؤ۔ میں تمہیں اس کا حکم دے رہا ہوں۔‘‘
ایک انتہائی قابل اعتماد ذریعے نے بتایا کہ سپریم لیڈر نے ایرانی حکام کے اس اعلیٰ اجلاس کے شرکاء سے یہ بھی کہا کہ تب ایران میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا، اگر حکام اسے بند کروانے میں ناکام رہتے تو علی خامنہ ای انہی حکام کو ذاتی طور پر اس کا ذمے دار ٹھہراتے۔
مظاہرین کو 'پوری طاقت سے کچل دینے‘ کا پختہ عزم
سترہ نومبر کے اجلاس کی کارروائی کی تصدیق کرنے والے ذرائع میں سے ایک نے بتایا، ''ہمارے دشمن ایران میں اسلامی انقلاب کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے فوری اور فیصلہ کن ردعمل لازمی تھا۔‘‘ ان ذرائع میں سے ایک دوسرے نے روئٹرز کو بتایا، ''ہمارے امام (سپریم لیڈر علی خامنہ ای) صرف خدا کو جواب دہ ہیں۔ انہیں عوام اور اسلامی انقلاب کی فکر رہتی ہے۔ اسی لیے اس بارے میں ان کی سوچ بہت پرعزم تھی کہ فسادات پر اتر آنے والے مظاہرین کو پوری طاقت سے کچل دیا جانا چاہیے تھا۔‘‘
ایران میں وسط نومبر سے شروع ہو کر گزشتہ ماہ کے اواخر تک جاری رہنے والے یہ عوامی احتجاجی مظاہرے نہ صرف انتہائی حد تک سیاسی رنگ اختیار کر گئے تھے بلکہ ان کا دائرہ مجموعی طور پر ملک کے 100 سے زائد شہروں اور قصبوں تک بھی پھیل گیا تھا۔
م م / ک م (روئٹرز)
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔