ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ جب تک ٹرمپ دور کی پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں اس وقت تک تہران جوہری معاہدے کی کلیدی شقوں پر عمل نہیں کرے گا۔
اشتہار
ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے اتوار 21 مارچ کو ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ اس سے پہلے کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کرے امریکا کو تہران کے خلاف عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
ایران کے نئے سال 'نو روز' کے موقع پر ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے سے امریکا کے الگ ہونے کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی اور اسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ''بڑا جرم'' قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا، ''وہ (ٹرمپ) اپنے ملک کو بدنام کرتے ہوئے، بڑے برے انداز سے چلے گئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی نا کام ہوچکی ہے اور اگر موجودہ امریکی انتظامیہ بھی اسی راہ پر چلنا چاہتی ہے، تو وہ بھی نا کام ہوگی۔''
ایران جلد بازی میں نہیں ہے
خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ان کا یہ موقف ایران کی ''حتمی پالیسی'' پر مبنی ہے اور ان کی حکومت پابندیاں ختم کرانے میں ''جلد بازی سے بھی کام نہیں لے رہی ہے۔'' انہوں نے کہا، ''جس پالیسی کا ہم نے اعلان کیا ہے اگر وہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کریں تو پھر ہر چیز درست ہو جائے گی۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر یہی موجودہ صورت حال برقرار رہے گی جو فی الوقت ہے، اور یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔''
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
ایران میں آئندہ جون کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس موقع پر مذہبی پیشوا نے صدارتی امیدواروں کو بھی متنبہ کیا کہ انہیں یہ مان کر چلنا چاہیے کہ امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی اور انہیں اسی بنیاد پر اپنی معاشی منصوبوں کو بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
اشتہار
ٹرمپ نے کیا کیا تھا؟
امریکا سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے سن 2015 کے جوہری معاہدے میں ایران نے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ عالمی طاقتوں نے اس کے بدلے میں تہران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن جب ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا کو اس معاہدے سے الگ کر کے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنی شروع کیں تو ایران نے بھی معاہدے کے حدود ترک کر دیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایرانی بینکوں سمیت دیگر اہم معاشی اداروں پر بھی پابندیاں لگا دیں تھیں۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کی شرح بڑھا دی۔ ایران چاہتا ہے کہ معاہدے کے تمام فریق اپنے وعدوں کو پورا کریں تو وہ بھی اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے کہا تھا کہ امریکا نیوکلیئر ڈیل میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہے اور جیسے ہی تہران حکومت جوہری معاہدے میں طے شدہ شرائط کی تعمیل کا مظاہرہ کرے گا ویسے ہی واشنگٹن دوبارہ ڈیل میں شامل ہو جائے گا۔
تاہم دونوں کا اصرار اس بات پر ہے کہ پہلا قدم دوسرا فریق اٹھائے۔ امریکا کا موقف ہے کہ پہلے ایران جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرے پھر امریکا اس میں شامل ہونے پر بات چیت کرے گا جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکا اس معاہدے سے خود پہلے الگ ہوا تھا اس لیے پہل بھی اسے کرنی ہوگی۔
اس تعطل کو دور کرنے کی کوشش کے تحت بین الاقوای توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی دونوں حکومتوں سے بات چیت بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ اس معاہدے میں امریکا کی واپسی ممکن ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔