بچے کتنے ہونے چاہیں اور ان میں کتنا وقفہ ہو گا؟ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ فیصلہ عام طور پر مرد حضرات ہی کرتے ہیں۔ اکثر خواتین کے پاس اپنے شوہروں کی بات ماننے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔
اشتہار
ہیلتھ اینڈ ڈیموکریٹک سروے 2017ء اور 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین میں سے صرف سات فیصد نے اپنے بل بوتے پر خاندانی منصوبہ بندی کا فیصلہ کیا۔ خاندانی منصوبہ بندی کا تعلق فیصلہ سازی سے بھی ہے اور بیشتر خواتین کو اس عمل سے دور رکھا جاتا ہے۔ اسی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں 15 سے 49 سال کی عمر کے 27 فیصد مردوں کا خیال ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اقدامات اٹھانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے۔
’بات کرو تو مذاق اڑاتے تھے‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک شادی شدہ خاتون فائزہ (فرضی نام) نے بتایا کہ ان کو شادی کے بعد تک بھی خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا علم نہیں تھا مگر ان کے شوہر چونکہ ادویات کے کام سے منسلک تھے سو وہ انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی افادیت اور طریقوں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے تھے۔ فائزہ نے بتایا کہ ان کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی خواتین سے جب بھی وہ خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق بات کرتیں تو انہی پر تنقید کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ ساتھی خواتین حمل ضائع کرنے کو تو صحیح گردانتی تھیں مگر خاندانی منصوبہ بندی کو ٹھیک نہیں سمجھتی تھیں۔ دوسری جانب کچھ ایسے ہی معاملات ان کے شوہر کے ساتھ بھی پیش آتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کے شوہر اپنے دوست احباب کے سامنے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق گفتگو کرتے تھے تو انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس موضوع پر گفتگو کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا تھا۔
فائزہ کا کہنا تھا کہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی باتوں سے وہ دلبرداشتہ تو ہوتی تھیں مگر کبھی بھی اتنی تنقید کے باوجود انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کو ترک کرنے کے متعلق نہیں سوچا۔ باہمی مشاورت کے بعد جب اس جوڑے نے اس بابت دو سینیئر ڈاکٹروں سے رجوع کیا تو ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ بھی دیا کہ وہ نس بندی یا ادویات کے بجائے کونڈمز کا ہی استعمال کریں۔
اشتہار
خاندانی منصوبہ بندی کے رائج طریقے
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ٹیلی وژن پر، سوشل میڈیا اور آپس کی بات چیت میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کونڈمز کے استعمال کی ہی ترغیب دی جاتی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے ماہر ڈاکٹر محمد محی الدین نے پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے رائج طریقوں کے بارے میں بتایا،''پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں کونڈمز پہلے نمبر پر ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر خواتین کی طرف سے استعمال کی جانے والی افزائش نسل روکنے کی ادویات (Birth control pills) اور تیسرے نمبر پر رحم کے اندر مانع حمل کے لیے استعمال ہونے والے آلات (intrauterine contraceptive devices) آئی یو سی ٹی ہیں۔ ان طریقوں کےساتھ ساتھ مستقل نس بندی اور مانع حمل ٹیکوں کا استعمال بھی ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے لیے مرد وں کے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد محی الدین کا کہنا تھا،''آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مرد حضرات سب سے زیادہ کونڈمز کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کے ذریعے تقریبا 80 سے 82 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، تاہم اس کے مؤثر ہونے کا تعلق اس کے استعمال کے طریقہ کار اور معیار پر بھی منحصر ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
12 تصاویر1 | 12
مردوں کی نس بندی
انہوں نے مزید بتایا کہ مرد نس بندی بھی کروا سکتے ہیں اور یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کرنے کے بعد مردوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت تو نہیں رہتی مگر اس سے ان کے جنسی تعلقات اور رویوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا،''نس بندی ایک بہترین طریقہ ہے مگر ہمارے معاشرے کے مرد افواہوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں نتیجتا نس بندی کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کا بوجھ خواتین پر پڑ جاتا ہے۔‘‘
مردوں کی نس بندی کی مخالفت
اسلام آباد میں مقیم، شعبہ صحافت سے وابستہ رضا غزنوی کا کہنا تھا کہ نس بندی کروانے میں یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر مرد نے دوسری شادی کرنی ہو تو آگے جا کر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ''کیونکہ ہمارے معاشرے میں اسی مرد کو طاقت ور سمجھا جاتا ہے جو بچہ پیدا کر سکتا ہے، اس لیے بھی مرد حضرات اس عمل سے گزرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘
خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں پر عمل کرنے والے 39 سالہ محمد سلیم (فرضی نام )کا کہنا تھا، ''یہ بچوں کے اچھے مستقبل اور تربیت کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا بہترین طریقہ مرد اور خواتین کے لیے کونڈمز ہے اگر نس بندی کرنی ہو تو میں خواتین کی نس بندی کے حق میں ہوں۔ مرد ہونے کے ناطے میں مردوں کی نس بندی کے بالکل بھی حق میں نہیں ہوں۔‘‘
خاندانی منصوبہ بندی کے قانونی پہلو سے متعلق ماہر قانون مقداد سید نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی نہیں ہوئی، ''قانون فیملی یونٹ کی ترویج اور حفاظت کی بات تو کرتا ہے تاہم کسی کو خاندانی منصوبہ بندی کرنے یا نہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ قانون نہ ہی اس کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی مخالفت۔‘‘
خاندانی منصوبہ بندی صرف ایک خاندان نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ نہ صرف اپنے گھر کے وسائل کا حق دار بن جاتا ہے بلکہ ملک کے وسائل بھی اس پر خرچ ہونے لگتے ہیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حق داروں کی تعداد میں تو اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر وسائل اور اسباب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ہر جوڑے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی صرف اپنے ہی نہیں بلکہ بچے کے اچھے مستقبل اور ملک کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے۔