افغان مہاجرین سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے افغان شوہروں کو ملک بدر کرنے کے بجائے پاکستان کی شہریت دی جائے۔
اشتہار
یہ خواتین احتجاج کے دوران اپنے بچے بھی ساتھ لائی تھیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے شوہر افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے، کئی سال قبل ان کی شادی ہوئی اور اب ان کے بچے بھی جوان ہیں۔ یہ بچے پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہاں کے اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ پیر کے دن احتجاج کرنے کے بعد آج بروز منگل کچھ خواتین نے پیریس کلب میں صحافیوں سے بھی بات چیت کی۔
احتجاج کرنے والوں میں شامل رضیہ نامی خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’زیادہ تر پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو گرفتار کروا کے افغانستان منتقل کیا گیا ہے جبکہ پاکستانی خواتین کی اکثریت اپنے شوہروں کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں اور یہی حال ان بچوں کا بھی ہے، جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہاں جوان ہوئے، وہ اور ان کے بچے کبھی افغانستان نہیں گئے اور نہ اب افغانستان جانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
سال رواں کے دوران خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاون کے دوران ہزاروں افراد کو چودہ فارن ایکٹ کے قانونی کے تحت گرفتار کرکے ملک بدر کیا گیا جبکہ مختلف علاقوں میں اب بھی غیر قانونی رہائش پذیر افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
اس احتجاج میں شریک انور بی بی کا کہنا تھا، ’’میں پاکستانی ہوں لیکن میں نے افغان شہری سے شادی کی۔ میرا شوہر افغان ہے لیکن ان کی پیدائش پاکستان میں ہی ہوئی تھی۔ انہیں افغانستان بھیج دیا گیا ہے لیکن ہمارے بچے وہاں جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈوان سے ہم جیسے خواتین ایک اذیت میں مبتلا ہیں۔‘‘ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جن افغان شہریوں نے پاکستانی خواتین سے شادی کی اور جن کے بچے یہاں پیدا ہوئے انہیں پاکستانی شہریت دی جائے۔ انور بی بی کا کہنا تھا کہ اگر بھارت سے ہجرت کرنے والوں کو شہریت دی جاسکتی ہے تو افغانوں کو یہ حق دینے میں کیا مشکل ہے۔‘‘
کئی افغان شہری اپنے ساتھ اپنے بچے بھی لے کر گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پاکستانی بیویاں سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاج میں شریک شمیم بانو کا کہنا تھا، ’’ان کے افغان شوہر ان کے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ حکومتی پالیسی کی وجہ سے ہمارا خاندان دو ممالک میں تقسیم ہو گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے افغان شوہر کا خاندان کئی عشروں سے پشاور میں رہائش پذیر تھا۔ ایسے میں دونوں خاندانوں کے آپس میں رشتے ہوئے، جسے اب حکومتی پالیسی کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
مظاہرین کا کہنا تھا کہ درجنوں افغان گرفتاری کے بعد جیلوں میں بھی بند کر دیے گئے ہیں جبکہ افغان حکومتی اداروں نے بھی اس سنگین مسئلے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ مظاہرین کے مطابق افغان مردوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کے بعد کئی خاندان معاشی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
افغان مہاجرین سے شادی کرنے والی زیادہ تر پاکستانی خواتین نے شناختی کارڈ یا دیگر سفری دستاویزات بھی نہیں بنوائے ہیں جب کہ وہ افغانستان جانے کے بعد خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ پاکستانی خاتون شازیہ بی بی کا کہنا تھا، ’’میرے شوہر کو گرفتار کرکے افغانستان منتقل کیا گیا ہے، جہاں وہ بے روزگار ہیں۔ وہ اب بچوں کو بھیجنے کے لیے زور دے رہے لیکن ہمارے بچے افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے بچے یہاں پڑھ رہے ہیں۔ افغانستان میں بنیادی اور تعلیمی سہولیات نہیں۔ ہم دونوں ممالک کے سربراہان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا پائیدار حل نکالا جائے۔‘‘
پاکستان خواتین کے افغان شوہروں کا مؤقف جانے کے لیے جب افغان شہری عبداللہ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا، ’’یہاں پاکستانی اور افغان خواتین سہولتوں کی عادی ہو چکی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ افغانستان جا کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا، پانی باہر سے لانا پڑے گا جبکہ کھانا پکانے کے لیے لکڑی بھی کھیتوں سے لانا ہو گی لیکن یہاں تو سب کچھ آسانی سے مل جاتا ہے۔ ہم مردوں نے تو مزدوری کرنا ہے خواہ پاکستان ہو یا افغانستان لیکن خواتین سہولیات چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان کے مطابق افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے دوران سال رواں کے دوران ایک لاکھ افغان مہاجرین واپس وطن جاچکے ہیں، جن میں سب سے زیادہ یعنی ستر ہزار کا تعلق پختونخوا سے تھا۔ رضاکارانہ واپس جانے والوں کو دو سو سے چار سو ڈالر فی کس نقد امداد اور اشیائے ضرورت فراہم کی جاتی ہے۔