شامی معیشت تباہ ہو چکی ہے، عالمی بینک
10 جولائی 2017![Syrien Anschlag in Damaskus](https://static.dw.com/image/39510054_800.webp)
عالمی بینک کی اس رپورٹ کے مطابق شامی معیشت کو اس خانہ جنگی کی وجہ سے ہونے والا مجموعی نقصان اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے کئی گنا سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں ایک تہائی مکانات یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا انہیں بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے پہلے پانچ برسوں میں سالانہ بنیادوں پر قریب پانچ لاکھ اڑتیس ہزار ملازمتیں ختم ہوئی جب کہ وہاں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 78 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی بینک ہی اس خطے میں ترقی پذیر ممالک کو ترقیاتی قرضے اور امداد مہیا کرتا ہے۔
عالمی بینک کے نائب صدر برائے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ حافظ غنیم نے کہا، ’’شام میں جاری خانہ جنگی نے وہاں سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘
غنیم کی جانب سے کہا گیا کہ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں شامی معاشرے کو چلانے کے ضروری ادارے بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام میں تعلیم اور صحت سے متعلق قریب نصف عمارات یا تو تباہ ہو گئیں ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان عمارتوں کی مرمت ایسے ڈھانچوں کو نئے سرے سے قائم کرنے سے بھی بڑا چیلنج ہو گی جب کہ اگر جنگ جاری رہی تو یہ نقصان مزید بڑے مسائل میں تبدیل ہو جائے گا۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحت سے متعلق نصف تنصیبات کی تباہی کی وجہ سے شام میں صحت کا نظام تہہ و بالا ہو چکا ہے اور وہاں پولیو جیسی بیماریاں دوبارہ سے جنم لینا شروع کر چکی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق صحت کے ادارے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شام میں اسکولوں کی زیادہ تر عمارتیں عسکری تنصیبات میں بدل چکی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنگ کی وجہ سے ان عمارتوں کو بھی شدید نقصانات پہنچے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق خانہ جنگی کی وجہ سے شام کو 226 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، جو کہ سن 2010 میں شام میں خانہ جنگی سے قبل کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔