خانہ کعبہ کی تصویر اور ہم جنس پرستوں کا پرچم، معاملہ کيا ہے؟
5 فروری 2021
ترکی ميں طلبا اور اساتذہ کی ایک احتجاجی تحريک کے دوران چند افراد نے ايسی تصاوير شيئر کيں، جن ميں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ کی تصویر کے ساتھ ہم جنس پرستوں کا جھنڈا دیکھا جا سکتا تھا۔
اشتہار
اس پيش رفت پر انقرہ حکومت نے شديد رد عمل ظاہر کيا۔ ترکی کے شہر استنبول کی ايک بڑی يونيورسٹی ميں ايک متنازعہ تقرری کے خلاف جاری طلبا کے احتجاجی مظاہروں ميں چند ايسی تصاوير بھی ديکھی گئيں، جن ميں مسلمانوں کے مقدس ترين مذہبی مقام خانہ کعبہ کی تصویر کے ساتھ ہم جنس پرستوں کا روایتی جھنڈا دکھایا گیا تھا۔
يہ مسلمانوں کے ليے انتہائی حساس معاملہ ہے۔ يہی وجہ ہے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس پر شديد رد عمل ظاہر کيا گيا۔ احتجاج کا يہ سلسلہ اب ملک کے کئی شہروں تک پھيل چکا ہے اور سياسی مبصرين اسے سن 2013ء کے بعد ترکی ميں صدر رجب طيب ايردوآن کے خلاف سب سے بڑی احتجاجی تحريک قرار دے رہے ہيں۔
معاملہ ہے کيا اور شروع کيسے ہوا؟
قريب ايک ماہ قبل صدر ايردوآن نے مليح بُولُو کو استنبول کی بوازک يونيورسٹی کا ريکٹر مقرر کيا۔ بُولُو حکمران جماعت کے بہت قريب سمجھے جاتے ہيں۔ اساتذہ اور طلبا نے تقرری کو شعبہ ادب و تعليم ميں آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف قرار ديتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ بُولُو سے ان کے استعفے کا مطالبہ کيا گيا، جسے انہوں نے مسترد کر ديا۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران يہ احتجاج زور پکڑتا گیا اور مظاہرين کے خلاف پوليس کے سخت کريک ڈاؤن کے مناظر سامنے آنے لگے۔ اب فروری کے اوائل ميں يہ احتجاج ايک باقاعدہ تحريک کی شکل اختيار کر گيا ہے اور ملک گير سطح پر چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کيا جا چکا ہے۔ بيشتر مظاہرين کو بعد ازاں رہا بھی کر ديا گيا۔ کئی مقامات پر پوليس کی کارروائی ميں آنسو گيس کا استعمال اور لاٹھی چارج بھی ديکھا گيا۔
بین الاقوامی رد عمل کيسا تھا؟
امريکا، يورپی يونين اور اقوام متحدہ نے ترکی ميں مظاہرين کے خلاف طاقت کے استعمال کی شديد مذمت کی۔ يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کے سربراہ جوزیپ بوريل نے چار فروری کو اس بارے ميں ایک تفصيلی بيان جاری کيا، جس ميں ترکی کے حالات اور وہاں جاری واقعات پر گہری تشويش کا اظہار کیا گیا۔ جواباﹰ ترک وزارت خارجہ نے آج جمعہ پانچ فروری کو جاری کردہ اپنے ایک بيان ميں اس بین الاقوامی رد عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ترکی کے اندرونی معاملات ميں دخل اندازی نہ کی جائے۔
ترک وزارت داخلہ نے اسی ہفتے بتايا کہ اس احتجاج ميں شريک بائيس مظاہرين کے دہشت گرد تنظيموں کے ساتھ روابط ہيں۔ صدر ايردوآن نے بھی تمام مظاہرين کو دہشت گردوں سے تعبير کرتے ہوئے کہا کہ ان طلبا کے خلاف سخت ايکشن ليا جائے گا، جو قومی اور معاشرتی اقتدار کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
ترکی میں غصہ، احتجاج اور غم
منہدم کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کے زندہ بچ جانے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تصویر: Reuters
اس حادثے پر ترک حکومت نے سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ اس موقع پر انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ترک وزیر توانائی تانر یلدز کا کہنا کہ وقت ان کے حق میں نہیں جا رہا اور ابھی تک 196 لاشیں ان کے لوحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/abakapress
وزیر اعظم ایردوآن نے کہا کہ کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن مقامی کان کن آپریٹرز کے مطابق 120 مزدور ابھی بھی کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منہدم کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کے زندہ بچ جانے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حادثے کے وقت کوئلے کی کان میں تقریباﹰ 787 کارکن موجود تھے۔
تصویر: Reuters
بدھ کو رات گئے بتایا گیا کہ تقریباﹰ 450 مزدوروں کو کان سے باہر نکال لیا گیا ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق فی الحال ان اعداد و شمار کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters
وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے کا صوبہ مانیسا کے شہر صوما میں متاثرہ کان کے دورے کے بعد کہنا تھا، ’’ ہمیں اپنی حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کا سامنا ہے۔‘‘ اس علاقے میں موجود متاثرین کے غمزدہ رشتہ داروں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: Reuters
صوما کے علاقے کو لگنائٹ کوئلے کی کان کنی کے لیے ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہ استنبول سے تقریبا 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
تصویر: picture alliance/AA
اس سے قبل ترکی کی کان کنی کی صنعت میں بدترین حادثہ 1992ء میں پیش آیا تھا۔ اس وقت 263 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ دریں اثناء ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکا نے ترکی کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کی ہے۔
تصویر: picture alliance/AA
انقرہ اور استنبول میں ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت اور کان کنی کی صنعت پر غفلت برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انقرہ میں تین سے چار ہزار افراد نے حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کی۔ پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا۔
تصویر: Reuters
اسی طرح استنبول میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرہ کیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سے پہلے اُن آٹھ سو اسٹوڈنٹس کے خلاف بھی آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جنہوں نے وزارت توانائی کی طرف مارچ کیا۔
تصویر: Reuters
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومتی سطح پر غفلت برتنے کے الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو ایردوآن حکومت کو انتہائی سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
احتجاج ميں ہم جنسی پرستوں کا کردار؟
استنبول کی سب سے معتبر يونيورسٹی ميں شروع ہونے والا احتجاج اس وقت شدت اختيار کر گيا، جب چند طلبا نے نئے ريکٹر مليح بُولُو کے دفتر کے باہر ايسے پوسٹر لگا دیے، جن ميں مسلمانوں کے مقدس ترین مذہبی مقام خانہ کعبہ کو ایسے دکھایا گیا تھا کہ اس کی ایک تصویر پر ايل جی بی ٹی يا ہم جنس پرست کميونٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس موضوع پر کئی تصاوير سوشل ميڈيا پر بھی کافی زیادہ شيئر کی گئيں۔
ہم جنس پرستی کا ترک طلبا اور اساتذہ کی اس احتجاجی تحريک سے براہ راست کوئی تعلق نہيں مگر چند افراد کے اس بہت متنازعہ عمل نے اس معاملے کو ایک تعلیمی تنازعے کے عین مرکز ميں دھکیل دیا۔ بدھ کے روز صدر ایردوآن نے بھی اس بارے میں ایک سخت بيان ديا۔ انہوں نے کہا، ''ايل جی بی ٹی جيسی کوئی شے ہے ہی نہيں۔ يہ ملک اور معاشرہ اخلاقيات پر مبنی ہیں اور مستقبل ميں بھی ايسا ہی ہو گا۔‘‘
قبل ازيں ترک وزير داخلہ سليمان سوئلو نے بھی ايک ٹويٹ مں کہا تھا کہ 'چار ايل جی بی ٹی کارکنوں‘ کو پکڑ ليا گيا ہے اور يونيورسٹی ميں ان کا کلب بند کرا ديا گيا ہے۔ يورپی اور امريکی حکام نے اس واقعے کے تناظر ميں ترکی ميں ہم جنس پرستوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان کو 'نفرت آميز‘ قرار ديتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
اسلامی عبادات کا اہم رکن: حج
سعودی عرب کے مقدس مقام مکہ میں اہم اسلامی عبادت حج کی ادائیگی ہر سال کی جاتی ہے۔ حج کے اجتماع کو بڑے مذہبی اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ رواں برس کے حج کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی تعداد
زائرین سعودی شہر مکہ میں واقع خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مذہب کا سب سے مقدس ترین مقام ہے۔ ہر مسلمان پر ایک دفعہ حج کرنا واجب ہے، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہوا۔ سن 1941 میں حج کرنے والوں کی تعداد محض چوبیس ہزار تھی جو اب سفری سہولتوں کی وجہ سے کئی گنا تجاوز کر چکی ہے۔ رواں برس یہ تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
خانہٴ کعبہ کا طواف
دوران حج زائرین مختلف اوقات میں خانہٴ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک طواف کی تکمیل میں سات چکر شمار کیے جاتے ہیں۔ استعارۃً خانہ کعبہ کو اللہ کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ زائرین طواف کے دوران بلند آواز میں دعائیہ کلمات بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
چون ملین حاجی
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران حج کرنے والوں کی تعداد چون ملین کے قریب ہے۔ سعودی حکام کا خیال ہے کہ سن 2030 تک سالانہ بنیاد پر مکہ اور مدینہ کے زیارات کرنے والے زائرین کی تعداد تیس ملین کے قریب پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
اسی لاکھ قرآنی نسخے
سعودی عرب کے محکمہٴ حج کے مطابق ہر روز مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن کے اسی لاکھ نسخے مختلف ممالک کے زائرین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مقدس مقامات میں افراد کو حسب ضرورت مذہبی وظائف کی کتب بھی پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
دو ہزار اموات
حج کے دوران دہشت گردی کے خطرے کو سعودی سکیورٹی حکام کسی صورت نظرانداز نہیں کرتے لیکن مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچھے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے خوفناک سن 2015 کی بھگدڑ تھی، جس میں دو ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ سعودی حکام اس بھگدڑ میں ہلاکتوں کی تعداد محض 769 بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
خصوصی ایمبیولینس سروس
مناسک حج کی ادائیگیوں کے دوران پچیس مختلف ہسپتالوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔ تیس ہزار ہنگامی طبی امدادی عملہ کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے الرٹ ہوتا ہے۔ ہنگامی صورت حال کے لیے 180 ایمبیولینسیں بھی ہر وقت تیار رکھی گئی ہیں۔ شدید گرمی میں بھی کئی زائرین علیل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib
تین ہزار وائی فائی پوائنس
رواں برس کے حج کے دوران سولہ ہزار ٹیلی کمیونیکیشن ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں۔ انہیں تین ہزار وائی فائی پوائنٹس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح رواں برس کے حج کو ’سمارٹ حج‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
ہزاروں خصوصی سول ڈیفنس اہلکاروں کی تعیناتی
رواں برس کے حج کے دوران ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اٹھارہ ہزار شہری دفاع کے رضاکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار مختلف مقامات پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی آمد کا سلسلہ
مناسک حج کی عبادات میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے بذریعہ ہوائی جہاز اور ہمسایہ ممالک سے زمینی راستوں سے لاکھوں افراد سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ صرف چودہ ہزار انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازیں سعودی ہوائی اڈوں پر اتری ہیں۔ اکیس ہزار بسوں پر سوارہو کر بھی زائرین سعودی عرب پہنچے ہیں۔