1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خان! بتائیں نا یہ پانیاں آپس میں کیا باتیں کر رہی ہیں

9 جنوری 2022

گئے لمحے سے نئے لمحے کا سفر اور تاریخ کے ایک عدد پر ایک نئے عدد کا چڑھ جانا، کیا یہیں نیا سال ہے؟ آئیے فرنود عالم کے اس بلاگ میں نئے برس میں لمحہ بہ لمحہ اور منظر بہ منظر داخل ہوں۔

DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

لوبان کی دھونی میں مہکی ہوئی تین روحوں سے پھوٹنے والی مثبت انرجی نے ماحول میں بہار کے رنگ گھول دیے تھے۔ دماغ کی الجھی ہوئی سب تاریں ایک کے بعد ایک سلجھتی چلی جا رہی تھیں۔ دل کے گلستان میں نیلی پیلی تتلیاں اڑ رہی تھیں۔ آنکھوں میں رنگ اتر رہے تھے اور سماعت کے دونوں پردے حسین آوازوں کے انتظار میں بچھے جارہے تھے۔ موسیقی کی ایک لہر اٹھی اور یادوں کو دریا کے اُس پار لے گئی۔ یادوں کی بستی میں کچھ دیر چلے اور مڑکر دیکھا، سال بھر کی ساری تھکن پیچھے رہ گئی تھی اور ہم بہت آگے نکل آئے تھے۔

 ہم اڑنا چاہتے تھے مگر اکیس اور بائس کے سنگم پر بنے اس فلیٹ کا لاؤنج چھوٹا پڑ رہا تھا۔ عین غروب کے وقت راگ ایمن کلیان کے ساتھ احساسات بہہ رہے ہوں تو ضروری ہوتا ہے کہ من کی دنیا میں بے پناہ کشادگی ہو۔ چار دیواری میں روشنیاں پیلی اور مدھم ہوں تو دیواریں برف کی سی ہوجاتی ہیں، جو احساس کی گرمی سے حسبِ ضرورت پگھلتی رہتی ہیں۔ مگر اس لاؤنج میں سفید روشنی والی بتی نے دیواریں اٹھائی ہوئی تھیں۔ تلاش کے سفر پر نکلی ہوئی ایک نظر لیمب پر پڑی، کیا یہ کام کر رہا ہے؟

 اس سوال کا اتنا سا جواب بھی ہوسکتا تھا، نہیں! مگر جواب میں ایک خاموشی تھی۔ دراصل یہ سوال نہیں تھا، یہ ایک بات تھی جو کہنے والے نے کہہ دی اور سننے والے نے سمجھ لی۔ ماحول سے آلودگی اس قدر چھٹ گئی تھی کہ اب آواز ہی نہیں، آواز کا مطلب بھی ٹھیک ٹھیک سنائی دے رہا تھا۔ خاموشی کا دروانیہ ختم ہوا تو جواب نے جوتے پہننا شروع کردیے۔ آواز آئی، کیا ہم بھی ساتھ آئیں؟ جواب آیا، تم نے آنا ہے یا نہیں، یہ تمہارا دل تمہیں بتائے گا۔ تینوں نے جوتوں کے تسمے کسے، اور پیلی دھیمی بتی کا بندوبست کرنے باہر چلے گئے۔

نکلے تو فضا میں پھیلی ہوئی مہک نے بتایا کہ موسم کے اندر کہیں بارشیں پل رہی ہیں۔آنکھیں جو رنگوں کی تلاش میں تھیں وہ دور آسمان پر شفق کی سُرخیوں میں محو ہوگئیں۔ انہماک اس قدر زندہ تھا کہ آسمان کی سرخیوں میں چھپے ہر رنگ کو الگ سے زوم کر کے دیکھا جاسکتا تھا۔ مزاجوں میں روانی اتنی تھی کہ ان رنگوں کو تیرتا ہوا بھی دیکھا جاسکتا تھا۔ تیرتے ہوئے ان رنگوں کو روکا بھی جاسکتا تھا۔ انہیں اوڑھ کر رقص بھی کیا جاسکتا تھا۔ ناچتے ناچتے دھواں بھی ہوا جاسکتا تھا۔ سُرمئی شام کی ان ٹھنڈی ہواؤں میں تحلیل بھی ہوا جاسکتا تھا۔

ہم تو پیلی دھیمی بتیوں کا بندوبست کرنے آئے تھے، یہ ہم کہاں الجھ گئے؟ اس سوال کے جواب میں آسمان سے نگاہ ہٹی تو پھسلتی ہوئی بائیں جانب چھوٹے سے فوارے میں اتر گئی، جہاں وہ بہتے ہوئے رنگین پانیوں سے کھیلنے لگی۔ فوارےکے پانیوں سے اٹھنے والی آواز سماعت پر گری تو  بھک سے خیال کا ایک پردہ کھلا، سبز پہاڑ اور نیلے آسمان والی بڑی سی ایک وادی سامنے آگئی، جہاں شفاف چشمے کا پانی پورے ردھم میں بہہ رہا ہے۔ دور بار بی کیو کی انگیٹی سی دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا تو لگا کہ شفاف چشمے والی وادی میں بھیگا ہوا ایک کچا سا مکان ہے، جس میں کنچی آنکھوں والی ایک کم آمیز لڑکی نے تنور جلادیا ہے۔ بھیگے ہوئے کچے مکان سے دھواں اٹھ رہا ہے، جو ہمیں ساتھ لے کر فضاوں میں پھیل رہا ہے۔ تین بکریاں سامنے سے گزریں، تو وادی میں دور ایک تھکا ہوا چرواہا نظر آگیا، جو ایک ٹیلے پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا ہے۔ کچھ دیر چپ ہوکر کچھ سوچ رہا ہے۔ کچھ سوچ کر مسکرا رہا ہے۔ مسکرا کر پھر سے بانسری بجا رہا ہے۔

فوارے کے رنگین پانیوں میں اتری ہوئی آنکھ تب جھپکی جب بہت دور نکلی ہوئی سماعتوں پر آواز پڑی، خان! یہ اِدھر ہی ہے، وہ جائے گا۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ فوارے کا رنگین پانی تو یہیں ہے، مگر دور آسمان پر رنگوں کی جو قوسِ قزح پھیلی ہوئی ہے، وہ جا رہی ہے۔ کرسی ذرا سی کھسکائی اور آنکھ اٹھاکر وہاں رکھ دی جہاں سڑک اور آسمان آپس میں مل رہے تھے۔ سورج نظر نہیں آرہا تھا، مگر زری والے آسمان کی گہری ہوتی ہوئی سُرخی بتارہی تھی کہ چند گھڑی کا مہمان لال دھاگوں والے بچھونے میں نہ بِکنے والے خواب سمیٹ رہا ہے۔ مشرق اور مغرب کے بیچ پھیلی ہوئی ایک لکیر بہت تیزی سے بجھ رہی ہے اور دل ڈوب رہا ہے۔ سردی کی شدت بڑھ رہی ہے اور آسمان اوڑھنے کے لیے تاروں بھری کالی چادر نکال رہا ہے۔ سال 2021 کا سورج  جا رہا ہے، سال 2022 کا چاند نون میم راشد کا مصرع گنگناتا ہوا دوسری سمت سے چلا آرہا ہے۔ خواب لے لو خواب!

سال 2022 میں جو پہلی آواز سنائی دی، وہ ایک سوال تھا۔ خان! یہ پانیاں آپس میں کیا باتیں کر رہی ہیں۔ سوال سن کر جواب کرسی پر دراز ہوگیا۔ دھیان نے پانیوں کی باتیں سننی تھیں، مگر نگاہ نے دھیان کو آسمان پر بچھے ہوئے کینوس پر مصوری کرنے پر لگا دیا۔ بادل کے ٹکڑے کبھی چاند پر سُوت کاتنے والی بڑھیا کا روپ دھارتے ہیں کبھی پھیل کر ہرن بن جاتے ہیں۔ ہرن پھیلتی ہے تو دھول میں دوڑتا ہوا گھوڑا بن جاتا ہے۔ گھوڑا بکھرتا ہے تو مصر کے میوزیم میں سیدھی لیٹی ہوئی کوئی ممی بن جاتی ہے۔ بادل ایک بار پھیل کر واپس سمٹتے ہیں تو ایک کھڑکی بن جاتی ہے، جو ذرا سے انتظار کے بعد بہشت کی طرف کھل جاتی ہے، جہاں پانچ منزلہ عمارت کی بالکونی میں بیٹھی زندگی ستاروں کو دیکھ رہی ہے۔ زندگی نے ہاتھ بڑھا کر آسمان سے ٹھنڈے ٹھنڈے ستارے توڑے اور کالے انگور کے لال پانیوں میں ڈال دیے۔ ایک گھونٹ بھرتے ہی برفیلے ستارے برسنے لگے۔ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی  دنیا میں برف برسی تو منظر اجلا اجلا سا ہونے لگا۔ ارے، یہاں تو پہاڑ ہیں اور کچھ مکان ہیں۔ برف سے ڈھکے ہوئے ڈھیر سارے درخت ہیں اور اداسیوں میں لپٹی ہوئی ایک تہہ دار خاموشی ہے۔

وہ ہاتھ باندھے اور بال کھولے چپ چاپ بالکونی میں کھڑی تھی۔ وہ پہلی بار برف باری دیکھ رہی تھی، مگر خدا جانے وہ کیوں اداس تھی۔ لمحے کو جینے  سے وہ اکثر گھبراتی تھی۔ وصل کے لمحے میں بھی فراق کا تصور اسے ہراساں کرتا تھا۔ بالکونی میں بھی شاید اسے دور دراز کے اندیشوں نے گھیرا ہوا تھا۔ لمحے نے چاہا کہ دبے قدموں پیچھے سے جاکر اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لے۔ اس کی گردن پہ ہونٹ رکھ کر جسم کی دھیمی سی حرارت اور بھینی سی مہک کو محسوس کرے۔ برف کے چمکتے ہوئے ذرات روئی کی طرح اڑتے اڑاتے جب اس کے لمبے اور کھلے سیاہ بالوں میں گرے تو آسمان پر پھر سے ستارے چمکنے لگے۔ کیا ان ستاروں میں سے ایک ستارہ توڑ کر میں لاؤنج میں رکھے لیمب میں لگالوں؟ آواز آئی، یہ ستارے جو نظر آرہے ہیں یہ سب فعلِ ماضی کے صیغے ہیں۔ ہمارے اور ان کے بیچ لاکھوں نوری سال کا فاصلہ ہے۔ اُتنا ہی فاصلہ، جو ساتھ رہنے والے دو انسانوں کے بیچ اکثر ہوتا ہے۔

یکایک سوئی کا کانٹا بارہ کے ہندسے سے ٹکرایا اور سارے شہر کی فضا فائر ورک سے گونج اٹھی۔ چھتوں سے آسمان کی طرف روشنیاں بلند ہورہی تھیں اور جل بجھ کر واپس چھتوں پر گر رہی تھیں۔ کیلینڈر کا آخری صفحہ ہلکی سی سرسراہٹ کے ساتھ پلٹا اور آواز آئی، بتاؤ نا خان! یہ پانیاں آپس میں کیا باتیں کر رہی ہیں۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں