1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خان سید پاکستان تحریک طالبان کا نیا سربراہ نامزد

امتیاز احمد2 نومبر 2013

پاکستان تحریک طالبان کی سپریم شوریٰ نے جنوبی وزیرستان کے کمانڈر خان سید کو پاکستان تحریک طالبان کا نیا سربراہ نامزد کر دیا ہے۔ قبل ازیں مقتول سربراہ حکیم اللہ محسود کی ایک نامعلوم مقام پر تدفین کر دی گئی تھی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان تحریک طالبان کے نئے سربراہ کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آ رہی ہیں تاہم بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں نے پاکستان تحریک طالبان کے متعدد ارکان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خان سید عرف سجنا کو تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہے۔ جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق نئے سربراہ کے انتخاب میں کم از کم 60 طالبان کمانڈر شریک ہیں اور ان میں سے تقریبا سترہ کو خان سید کی نامزدگی پر اعتراض ہے۔ طالبان کے ایک کمانڈر نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ خان سید کو نیا سربراہ نامزد کر دیا گیا ہے لیکن چند گروپوں کو اس فیصلے پر اعتراض ہے، جنہیں قائل کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے۔ تحریک طالبان کے ایک ترجمان اعظم طارق کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ نئے لیڈر کے انتخاب میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکیم اللہ محسود اپنے قریبی ساتھی لطیف محسود کو نائب بنانا چاہتے تھے لیکن چند روز پہلے وہ افغانستان میں امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں پکڑے گئے تھے۔

خان سید تحریک طالبان پاکستان کے بانی اور سن 2009ء میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے بیت اللہ محسود کا قریبی ساتھی ہے۔ رواں برس مئی میں تحریک طالبان کے نائب ولی الرحمان کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد خان سعید کو نائب مقرر کر دیا گیا تھا۔

سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے پاکستان کے سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کمزور ہوئی ہے اور يہ واضح نہیں ہے کہ آیا نیا سربراہ بھی تحریک طالبان کو کنٹرول کر پائے گا۔

دوسری جانب نیوز ایجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کے مطابق پاکستانی تحریک طالبان کے نئے سربراہ کے طور پر تحریک طالبان سوات کے سربراہ ملا فضل اللہ اور جنوبی وزیرستان کے کمانڈر خان سید کے نام سرفہرست تھے۔ ایک طالبان کمانڈر کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے سپریم شوریٰ کے ارکان نے تمام سینئر طالبان لیڈروں سے صلاح مشورہ کيا ہے۔ ڈرون حملے کے خطرے کے پیش نظر شوریٰ کے ارکان مسلسل اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہے۔ اس خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کے ترجمان اعظم طارق نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

پاکستانی خفیہ اہلکاروں کے مطابق طالبان شوریٰ کا اجلاس شمالی وزیرستان میں ہی کسی نامعلوم مقام پر ہوا۔ دوسری جانب ڈرون طیاروں کی پروازیں بھی جاری ہیں، جس سے علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

محسود کی تدفین

پاکستانی سکیورٹی حکام اور میڈیا اطلاعات کے مطابق رات کی تاریکی میں مختلف مقامات پر پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں کی تدفین کر دی گئی ہے۔ پاکستانی خفیہ اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حملے میں حکیم اللہ محسود کا جسم بری طرح متاثر ہوا تھا تاہم چہرے کو پہچانا جا سکتا تھا۔

امن مذاکرات کا مستقبل

پاکستان حکومت نے گزشتہ روز ہونے والے ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرون حملہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب آج پاکستانی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے ماضی میں بھی ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے اور اب بھی کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے گا۔

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ یہ ڈرون حملہ مذاکرات پر کیا گیا ہے۔ طالبان کے نئے لیڈر سجنا کا تعلق طالبان کے اس گروپ سے ہے، جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان اب بھی امن مذاکرات جاری رکھیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب فوری طور پر مذاکرات کا شروع ہونا مشکل امر ہے تاہم کچھ عرصے بعد ان کا دوبارہ آغاز ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے عرفان شہزاد کا کہنا تھا کہ مجوزہ امن مذاکرات کا انحصار اس بات پر ہے کہ نیا لیڈر اپنی تنظیم کو کس قدر متحد رکھتا ہے۔ اختلافات کی صورت میں گروپ منتشر ہو جائیں گے اور پھر ہر ایک سے مذاکرات کرنا حکومت کے لیے مشکل ہوگا۔

انتقامی کارروائیوں کا خطرہ

پاکستان تحریک طالبان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے۔ تحریک کے ایک ترجمان اعظم طارق کا کہنا تھا، ’’حکیم اللہ محسود کے خون کا ہر قطرہ خودکش حملے میں تبدیل ہوگا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم ان سے بدلہ لیں گے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق بھی طالبان یا پھر ان کی ہمدردی رکھنے والے گروپ اور افراد انتقامی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تمام اہم تنصیبات اور مقامات کی سکیورٹی سخت کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں جبکہ قبائلی علاقوں سے ملحق تمام بڑے شہروں میں اضافی فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں