سات میں سے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے خان صاحب نے ایک ایسا چھکا مارا ہے، جو ان کے سیاسی مخالفین کے اوسان پر بھاری بھر کم ہتھوڑا بن کر برسا ہے۔ اس سے قبل 2018ء کے عام انتخابات میں بھی عمران خان نے قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2018ء اور 2022ء میں ایک بہت بڑا فرق تھا۔
2018ء میں پاکستان کی طاقتور ملڑی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پیچھے ایک آہنی دیوار بن کر کھڑی تھی اور عمران خان کو زور زبردستی سے اکثریت دلوا کر ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔
2022ء کی ضمنی انتخابات ایسے ماحول میں ہوئے، جب عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں غلط فہمیاں ایک پہاڑ بن چکی ہیں۔ خان صاحب نے فوجی قیادت کو کبھی میر جعفر اور کبھی نیوٹرل کا نام دے کر ان سب شخصیات پر الزامات لگا دیے، جو 2018ء میں انہیں وزیر اعظم بنانے کے لیے سرگرم تھیں۔
16 اکتوبر کے ضمنی انتخابات سے چند روز قبل تحریک انصاف کے ایک سینیٹر اعظم سواتی نے براہ راست آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ پر ایسے الزامات لگائے، جنہیں وہ کسی عدالت میں ثابت نہیں کر سکتے۔ اعظم سواتی گرفتار ہو گئے اور عمران خان نے ان کے بیان سے اعلان لا تعلقی کرنے کے بجائے ان کی گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ یہ تھا وہ ماحول، جس میں 16 اکتوبر کو ضمنی انتخابات منعقد ہوئے اور عمران خان نے قومی اسمبلی کی سات میں سے چھ نشستیں جیت کر یہ پیغام دیا کہ اب انہیں ملڑی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ این اے 31 پشاور میں عمران خان نے اے این پی کے بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور کو بڑے مارجن سے شکست دی لیکن اس حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح صرف 20 فیصد تھی۔ این اے 239 کراچی میں انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے نیر رضا کو شکست دی لیکن یہاں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح بمشکل 15 فیصد تھی۔
این اے 237 کراچی میں عمران خان کو پیپلز پارٹی کے عبدا لحکیم بلوچ نے شکست دی اور یہاں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح 20.33 تھی۔ این اے 157 ملتان میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو کو یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی نے شکست دے دی۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کا ٹکٹ قریشی خاندان کے بجائے کسی اور کو دیا جاتا تو کامیابی کا امکان زیادہ تھا۔
خان صاحب نے اس حلقے میں بار بار ایک ہی خاندان کو ٹکٹ دے کر موروثی سیاست کے بارے میں اپنے بیانیے کی نفی کی لہذا تحریک انصاف کے ایک مضبوط گروپ نے علی موسی گیلانی کو ووٹ دے کر عمران خان کے فیصلے کے خلاف خاموش احتجاج کیا۔ ملتان میں مہر بانو کی شکست کے بعد عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایسی غلطیاں نہ دہرائیں، جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔
جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو انہوں نے اس تحریک کو ایک غیر ملکی سازش قرار دے کر عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی۔ خان صاحب حکومت میں ہونے کے باوجود عوام کو سڑکوں پر نہ لا سکے اور آخر کار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔
اس دوران مسلم لیگ (ن) نے سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ کی کہ مرکز میں شہباز شریف کو وزیراعظم اور پنجاب میں ان کے برخوردار حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز مل کر بھی مہنگائی کو کنٹرول نہ کر سکے، جس کا سیاسی فائدہ عمران خان نے اٹھایا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح عمران خان کے دور اقتدار میں ان کے سیاسی مخالفین جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں پڑے رہے اور انہیں عدالتوں سے کافی تاخیر کے بعد ریلیف ملا تھا، وہ صورتحال عمران خان کو نہیں دیکھنی پڑی۔
عمران خان کو عدالتوں سے فٹافٹ ریلیف ملتا رہا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خان صاحب مسلسل ''نیوٹرلز‘‘ کو للکارتے رہے اور عدالتیں انہیں ریلیف دے کر یہ ثابت کرتی رہیں کہ وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
عمران خان کی حکومت کیسے ختم ہوئی اور حکومت ختم ہونے کے بعد چھ ماہ تک وہ گرفتار کیوں نہ ہوئے؟ اس سوال کا جواب بہت لمبا ہے اور بہت سے راز ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ جیسے جیسے یہ راز سامنے آتے جائیں گے، پاکستانی سیاست کے منظر پر تبدیلیوں کا عمل تیز ہوتا جائے گا۔
گزشتہ برس جب خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا دور دور تک نشان نہیں تھا تو ہم نے اسی کالم میں خان صاحب کو بتا دیا تھا کہ آپ کی صفوں میں بغاوت ہونے والی ہے۔ ایسی ہی ایک بغاوت دوبارہ بھی ہو سکتی ہے۔ بغاوت کے شعلے صرف تحریک انصاف تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کی لپیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی آ سکتی ہے۔
کچھ تجربہ کار مبصرین کا خیال ہے کہ 16 اکتوبر کو عمران خان تو جیت گئے لیکن تحریک انصاف ہار گئی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج ان کے مخالفین کو مزید متحد کریں گے کیوں کہ ملتان اور کراچی میں تحریک انصاف کی شکست سے انہیں یہ احساس ہوا کہ ریکارڈ توڑ مہنگائی کے باوجود لاکھوں لوگوں نے تحریک انصاف کے خلاف ووٹ ڈالے ہیں اور اگر وہ اپنی کارکردگی بہتر بنائیں تو عام انتخابات میں عمران خان کا مقابلہ مشکل نہیں ہو گا کیوں کہ خان صاحب قومی اسمبلی کی ہر نشست پر الیکشن نہیں لڑ سکتے۔
تحریک انصاف 16 اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں چھکا مار کر بہت خوش ہے لیکن یہ بھول رہی ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے الیکشن کمیشن کے خلاف خان صاحب کے الزامات کی نفی کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ساکھ میں بہتری آئی ہے اور اب الیکشن کمیشن کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ سنا کر نیا طوفان برپا کر سکتا ہے۔
خان صاحب کا خیال ہے کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کر کے شہباز شریف کو جلد از جلد عام انتخابات پر مجبور کر لیں گے لیکن وہ بھولیں مت کہ 16 اکتوبر کے بعد قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے دو ووٹ بڑھ گئے ہیں۔
خان صاحب کو اب چھ میں سے پانچ نشستیں خالی کرنی ہیں۔ ان پانچ پر ضمنی انتخابات میں مخالفین کو دو تین نشستیں مزید مل گئیں تو کیا ہو گا؟ آخر کار تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس آنا ہو گا اور اگر اسمبلی کے باہر سے تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی تو خان صاحب اور پاکستان شدید نقصان اٹھائیں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔