خاکوں پر مسلمانوں کا غصہ قابل فہم ہے مگر تشدد نہیں، ماکروں
1 نومبر 2020
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر مسلمانوں کو دھچکا لگا ہے لیکن دھچکے کی یہ کیفیت کسی بھی طرح کے تشدد کی دلیل کے طور پر قابل قبول نہیں ہو گی۔
اشتہار
صدر ماکروں نے یہ بات عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ اپنے اس تفصیلی انٹرویو میں کہی، جو عالمی وقت کے مطابق ہفتہ اکتیس اکتوبر کی شام نشر کیا گیا۔ ایمانوئل ماکروں نے کہا، '' میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ (پیغمبر اسلام کے) خاکوں کی اشاعت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی، تاہم میں یہ بات کبھی بھی قبول نہیں کروں گا کہ تشدد اپنی کسی بھی حالت میں جائز اور قابل قبول ہے۔‘‘
فرانسیسی صدر نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو یہ انٹرویو فرانس کے شہر نیس میں ایک مسلمان کی طرف سے چاقو سے کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے پس منظر میں دیا، جس میں حملہ آور کے ہاتھوں تین افراد مارے گئے تھے۔
'آزادیوں اور حقوق کا تحفظ ہمارا فرض‘
اس بارے میں فرانس میں جریدے شارلی ایبدو کی طرف سے حال ہی میں ایک بار پھر پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت اور پھر ایک فرانسیسی ٹیچر کی طرف سے اپنی کلاس میں ایسا ایک خاکہ دکھائے جانے کے بعد ایک مسلمان نوجوان کی طرف سے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیے جانے کے واقعات کے بعد خود صدر ماکروں نے آزادی اظہار رائے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک واضح بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فرانس اپنی سماجی اور ثقافتی اقدار اور آزادی رائے کی روایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
صدر ماکروں کے اس بیان کے بعد کئی مسلم ممالک میں فرانس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور ترک صدر ایردوآن نے نہ صرف صدر ماکروں کو 'ذہنی مریض‘ قرار دے دیا تھا بلکہ انہوں نے ترک عوام سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل بھی کر دی تھی۔ اس پس منظر میں الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں صدر ماکروں نے کہا، ''میرے خیال میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آزادیوں اور اپنے حقوق کا دفاع کریں۔‘‘
اس انٹرویو میں صدر ماکروں نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کے بعد بظاہر فرانس اور مسلم دنیا کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا ہر دعویٰ اور بیان محض ایک 'جھوٹ‘ ہے کہ ان خاکوں کی اشاعت کے پیچھے فرانسیسی ریاست ہے۔
ایمانوئل ماکروں نے کئی مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ان اپیلوں کی بھی مذمت کی، جو ایک سربراہ مملکت کے طور پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے فرانس کے خلاف غم و غصے کی وجہ سے جاری کی گئی تھیں۔
م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔