’خدا میرا بھی ہے‘
2 نومبر 2016ماہرین سماجیات کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ، ملازمت کرنے اور جائیداد میں حصہ دینے کا حقدار تو بنا دیا ہے لیکن حقیقت میں معاشرے میں انہیں آج بھی وہ عزت اور مقام حاصل نہیں ہے جو ایک عام شہری کو ملتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اور انہیں اپنے خاندانوں سے دور کر دینے کا رواج ان کی زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ڈرامہ سیریل ’خدا میرا بھی ہے‘ کی ڈرامہ نگار اسماء نبیل نے بتایا،’’یہ میرا پہلا تحریر کردہ ڈرامہ ہے، پاکستان میں روایتی موضوعات پر ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں۔ میڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ معاشرہ میڈیا سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور میڈیا معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے خواجہ سراؤں کے موضوع پر ڈرامہ کیوں بنایا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسما۶ نے بتایا،’’ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈر ہونا ایک تلخ حقیقت ہےکیوں کہ اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کی جاتی، اس لیے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ خواجہ سراؤں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا۔‘‘
اسماء کہتی ہیں کہ جس طرح مرد ہیں، جس طرح عورتیں ہیں اسی طرح خواجہ سرا بھی ہیں۔ ہمیں انہیں معاشرے میں ایک مقام دینا ہوگا تاکہ انہیں عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا موقع مل سکے اور اس ڈرامے میں یہی پیغام دیا گیا ہے کہ ’انٹر سیکس‘ اولاد یا کسی بھی خواجہ سراء کو قبول کرنا ہوگا، وہ بھی ہم سب کی طرح ہیں۔
اسماء نیبل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ڈرامے کو تحریر کرنے سے قبل انہوں نے اسکولوں اور ڈاکٹروں سے اس موضوع پر بات چیت کی تھی اور اس دوران انہیں یہ پتا چلا کہ خواجہ سراء بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں، کچھ میں مردانہ ہارمونز تو کچھ میں زنانہ ہارمونز زیادہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ پیدائشی طور پر کوئی ایک مخصوص جنس نہیں رکھتے، انہیں ’انٹر سیکس چائلڈ‘ کہا جاتا ہے۔ انٹر سیکس چائلڈ کے بارے میں بتانے سے والدین بھی کتراتے ہیں حالانکہ کئی مرتبہ ڈاکٹروں کے علاج اور آپریشن سے بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ٹرانس ایکشن الائنس‘ کے رکن قمر نے اس ڈرامے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ بات خوش آئند ہے کہ میڈیا پر بھی اس موضوع پر بات کی جا رہی ہے۔‘‘ قمر کی رائے میں مذہبی رہنماؤں اور معاشرے کی ہمدردی زیادہ تر پیدائشی خواجہ سراؤں کے ساتھ ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ یہ خواجہ سراء مردانہ جسم رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو ایک عورت کی طرح مانتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے شوق کے لیے ایسا کر رہے ہیں، یہ جعلی ہیں یا ان کو کوئی ذہنی بیماری ہے۔ قمر کہتے ہیں کہ معاشرے میں ان افراد کو اتنا معیوب سمجھا جاتا ہے کہ والدین خود اپنے ٹرانس جینڈر بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں یا والدین کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے اور ایسی اولاد کو زبردستی مرد کی طرح رہنے کا کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ اپنا گھر چھوڑ کر خواجہ سراؤں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
قمر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ ان کی زندگی آرام سے گزرتی ہے لیکن وہ اپنی پسند سے کپڑے پہن اور جس طرح کا روپ اختیار کرنا چاہیں وہ کرسکتے ہیں۔
اسماء نبیل کہتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں سے بات نہیں کرتے اور ایسے معاملات پر بچے بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس ڈرامے کے ذریعے میرا مقصد یہ بتانا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد معاشرے کا حصہ ہیں ان لوگوں کو قبول کیا جانے چاہیے جیسے کوئی بچہ معذور ہوتا ہے تو ماں باپ اسے خود سے الگ کرنے کے بجائے اسے قبول کرتے ہیں، اسی طرح ٹرانس جینڈر ایسی اولاد ہے، جسے قبول کیا جانا چاہیے، ’’یہ افراد ذہنی طور پر بالکل آپ کی طرح ہیں اور وہ ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ معاشرے میں یہ تبدیلی سب سے پہلے ماں لا سکتی ہے۔ یہ آسان نہیں ہے کیوں کہ خاندان، رشتہ داروں اور یہاں تک کہ شوہر کی طرف سے بھی اس پر دباؤ ہوسکتا ہے لیکن ماں کے پاس طاقت ہے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو قبول کر لے اور اس طرح معاشرے میں بھی تبدیلی آئے گی۔‘‘