1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خدا کرے تمہارے خواب کبھی سچ ناں ہوں!

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
21 فروری 2022

چھوٹے شہروں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں بسنے والی ننھی آنکھوں کے خواب بھی چھوٹے ہی ہوتے ہیں یا یوں کہنا مناسب رہے گا کہ ان کے خوابوں کی وسعت اس آسمان ہی کے مطابق ہوتی ہے، جتنا آسمان انہیں دیکھایا جاتا ہے۔

تصویر: privat

شہر اقتدار سے شہر لاہور اور پھر آگے چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں میں جنم لینے والی 'ننھی پریوں‘ کے ناموں میں مماثلت ضرور ہو سکتی ہے مگر خوابوں میں نہیں۔ ہم ترقی کی بہت سی منازل طے کر چکنے کے بعد بھی اپنی اس ذہنیت کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو پائے کہ 'بیٹی نے اگلے گھر جانا‘ ہے۔ یہ بیٹی کی بدنصیبی ہے کہ وہ محبتوں اور احساس کی مضبوط بیلیں منڈیر چڑھانے کے بعد بھی صرف اس جذبے کے ساتھ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ 'اسے رخصت ہونا ہے۔‘

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اٹھائی گئی آوازیں بہت بااثر نا بھی رہی ہوں مگر کچھ اثر ضرور چھوڑ کر گئی ہیں۔ ان آوازوں کے ارتعاش بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑنے میں بھی کامیاب رہی۔

سن 2021 میں پاکستان میں تقریباﹰ ایک لاکھ خواتین نے خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور تقریباﹰ دس ہزار خواتین خلع لینے میں کامیاب رہیں۔ خلع کی درخواست بھیجنا اور خلع لینے میں کامیاب ہونا، اس کے درمیان لڑی جانے والی جنگ نا صرف معاشی طور پر صبر آزما ہے بلکہ سماجی اور جذباتی لحاظ سے بھی تکلیف دہ ہے۔

 سن 2021 میں کتنے مردوں نے غصے، طیش یا غیرت میں آ کر اپنی زوجات کو طلاق دی؟ ہمیں یہ تعداد کہیں سے بھی نہیں ملے گی۔ کتنی خواتین طلاق کے بعد بھی سماجی ڈر اور معاشی بدحالی کے خوف سے اپنے شوہروں ہی کی دہلیز پر غیر شرعی طریقے سے رہائش پذیر ہیں؟ کوئی آپ کو نہیں بتائے گا۔ کتنی  ایسی خواتین ہیں، جو برسوں سے شوہروں سے الگ رہ رہی ہیں مگر خلع کے لیے رجوع نہیں کر پائیں؟ نہیں معلوم۔

عورت تشدد سہہ رہی ہے مگر بول نہیں سکتی کیونکہ اس کے پاس کوئی سماجی طاقت نہیں ہے۔ بچی پڑھنے کی عمر میں ماں بن رہی ہے اور اپنے مرتے خوابوں پر چیخنا چاہتی ہے مگر کس دروازے کو کھٹکھٹائے؟ جنوبی پنجاب میں آج بھی پسند کی شادی پر بیٹی کا گلا گھونٹنے کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر بچی خودکُشی کر لیتی ہے مگر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ معصوم بچیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے مگر قیامت کی خاموشی ہے کہ نا تو تھانہ آپ کی تکریم کر سکتا ہے او ر نا ہی ایسی خواتین کو کوئی قانونی مدد دینے کے لیے چھوٹے شہروں میں کوئی ادارہ موجود ہے۔

ستایسں سالہ صائمہ، جو ساہیوال کی رہائشی ہیں، نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا، ''پندرہ سال میں نے نوکر بن کر اس رشتے کو مضبوط  بنانے کی آرزو میں گزارے اور تین بچوں کو جنم دیا۔ اس امید پر کہ میرا شوہر ایک دن ذمہ دار باپ بن جائے گا۔ مگر آج اپنے تینوں بچوں کے ساتھ واپس اپنے باپ کے گھر ہوں، خلع کا مقدمہ بھی کر لیا اور بچوں کے خرچے کا کیس بھی۔ اور میری زندگی کے ان پندرہ قیمتی سالوں کا کیا، جو اس تجربے کی نظر ہوئے؟‘‘

صائمہ افسوس بھرے لہجے میں اپنی کہانی سنا رہی تھی، ''میں کالج کی ہونہار اور خوبصورت لڑکی تھی۔ مجھے نوکری کرنے کا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا شوق تھا لیکن والدین صاحب حیثیت ہوتے ہوئے بھی مجھے پڑھانا نہیں چاہتے تھے اور یوں کروڑوں مالیت کے جہیز میں میں رخصت ہوئی مگر پندرہ سال پانی کی طرح پیسہ بہا کر بھی میرے والدین میرا گھر نا بسا سکے۔ میرے حصے میں کیا آیا؟ ذہنی آزمائش، سماجی ناپسندیدگی اور مالی امداد۔‘‘

شہر اقتدار میں، جہاں جہاں، جب جب، جس جس کو ذاتی طور پر کسی چیز نے تکلیف پہنچائی، انہوں نے اس تکلیف کو کم کرنے کے لیے کچھ قانونی قواعد و ضوابط طے کر دیے۔ یہ مروجہ قوانین معاشرے کے عام فرد کے لیے کس حد تک فائدہ مند ہیں؟ یہ چانچنے کی سعی کسی نے نہیں کی۔

نکاح نامے میں موجود  ’’لڑکی کو طلاق‘‘ کا حق تفویض کرنے کی شق، جسے ہر باپ کاٹ کر خود اپنی بیٹی کو معذور بنا دیتا ہے، منتظر ہے کہ کب والدین کو یہ سمجھ آئے گی کہ یہ بیٹی کو مضبوط بنانے کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ والدین یہ کس خوف کے تحت کرتے آ رہے ہیں اور ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔

کیا مرد خواہ وہ باپ ہو، بھائی یا بیٹا، اب بھی عورت کو جذباتی طور پر کمزور تصور کرتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ کیوں دل و جان سے مانا جاتا ہے کہ 'گھر عورت بناتی ہے‘  یا 'عورت گھر بنانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی ہے‘  وغیرہ وغیرہ۔ عورت جذباتی طور پر کمزور ہے تو اب تک کتنی خواتین نے اپنے شوہروں کو غصے میں طلاق دی؟

سیانے یہی کہتے آئے ہیں کہ شادی ایک 'جوا‘ ہے۔ مگر اس جوئے میں نقصان سراسر وجود زن ہی کا کیوں ہوتا ہے؟ گریجوایشن یا پھر ایم اے کے بعد گھر کی ذمہ داری، بچوں کی پیدائش، سسرال کی خدمت۔ دس سال زندگی کے ان رشتوں کو دینے کے بعد پتہ چلے زمین کھینچ لی گئی ہے۔

 وہی خاتون نوکری کے لیے درخواست دے تو سوال داغا جاتا ہے کہ محترمہ اتنے سال کہاں تھیں؟ سرکاری نوکریوں میں عمر کی حد اور تجربے کی ڈیمانڈ لکھی ہوتی ہے۔ بچوں کے داخلے کے لیے سنگل مدر کے طور پر کسی بھی سکول میں جائیں تو سوال یہ ہوتا ہے کہ 'باپ کا شناختی کارڈ لائیں یا پھر گارڈئین شپ کے پیپرز دیکھائیں‘۔

 یعنی ماں ہونا کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا؟ آپ بینک اکاؤنٹ کھلوانے ہی چلی جائیں آپ سے باپ یا شوہر ہی کی تفصیلات مانگی جائیں گی۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا عورت بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟

یہاں ضرورت صرف قانون بنانے کی نہیں ہے بلکہ ذہنیت بدلنے کی زیادہ ہے۔کیا عورت بذات خود مکمل وجود نہیں رکھتی کہ اسے ہر قدم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اکیلی کچھ نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹی کو پہلا خواب ہی لال جوڑا پہننے کا دیکھایا جاتا ہے، اس کے باوجود کہ ہم نے بہت سی بیٹیوں کو زندہ رخصت کر کے لاش کی صورت وصول کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے بیٹیوں کی خوشیوں کے لیے آسائشوں اور سہولیات کو جہیز کی صورت بھی دیا ہے۔ اس کے باوجود 'دلہن بنانے‘ کے خواب دیکھانے والے بھی موجود ہیں اور دیکھنے والی 'معصوم پریاں‘  بھی۔ اس لیے اب دل سے دعا نکلتی ہے کہ 'خدا کرے تمہارے خواب پورے نا ہوں‘ بلکہ تم آسمان کی ان وسعتوں کو پہنچو، جو تمہارے چھوٹے صحنوں اور تنگ چوباروں سے نظر نہیں آتیں۔

ہم نے بڑے شہروں سے ابھرتی باہمت آوازیں سنیں، جنہوں نے تاریخ لکھی۔ بدقسمتی سے چھوٹے شہروں میں کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور خلع کے تکلیف دہ عمل سے بچنے کے لیے اذیت ناک رشتے کو نبھانے والی بچیوں کی آوازیں اب بھی سماج کے بنائے ہوئے ریت رواجوں کے تلے دبی ہوئی ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے کہا تھا، ''بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں وہ اس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔‘‘ حق چھیننے کا آغاز گویا پیدائش ہی سے ہو جاتا ہے۔ بیٹی کی پرورش اور بیٹے کی پرورش میں واضح فرق بیٹے کو کچھ بنانے بلکہ کامیاب آدمی بنانے کی تمنا اور بیٹی کو رخصت کرنے کی فکر ہے۔

 خواب دیکھیے اور خواب دیکھنے کی عادت ڈالیے۔ آسمان کا وہ حصہ، جو آپ کی چھت سے نظر آتا ہے، وہ اتنا ہی ہے، جتنا پرندہ اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ مگر پرواز دیکھیے پرندے کی، کتنی آزادی سے پر پھیلا کر آسمان کی وسعتوں میں یقین سے اڑتا ہے۔ وہی پر دیجیے اپنی بیٹی کو۔

خدا کرے اس کے خواب آسمان کی ان وسعتوں کو دیکھ کر بنیں، جو اس کی نگاہ سے اوجھل ہیں۔ وہ خواب، جو گھوڑے پر بیٹھ کر کسی شہزادے کے آنے کا نہیں، وہ خواب جو کسی اور کے گھر لال جوڑے میں جا کر اپنا گھر بنانے کا نہیں بلکہ خود اپنے بل پر شہزادی بننے کا ہو، جو اپنا خود کا مکان بنا کر اسے گھر بنانے کا ہو۔ ہماری بچیاں اب ایسے خواب دیکھیں تو انہیں یہ دعا دیتے ہوئے دل کانپے گا نہیں کہ خدا کرے تمہارے سب خواب سچ ہوں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں