خدا کے وجود پر شبے سے پاپائے روم بھی مبرہ نہیں
9 مارچ 2017جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات نو مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاپائے روم فرانسس نے جرمن جریدے ’دی سائٹ‘ میں اپنے آج شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ یورپ اور شمالی امریکا سمیت مغربی دنیا میں بڑھتی ہوئی پاپولزم ایک پریشان کن رجحان ہے۔
پوپ کے مطابق مسلسل بڑھتی جا رہی یہی عوامیت پسندی مغربی معاشروں کے جمہوری ڈھانچوں کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’گزشتہ صدی انسانیت کو یہ دکھا چکی ہے کہ پاپولزم ایک بری چیز ہے، جس کا انجام بھی برا ہوتا ہے۔‘‘
مہاجرین خطرہ نہیں، ترقی کے لیے چیلنج ہیں، پوپ فرانسس
عوامیت پسندی سے ہٹلر جیسے ’نجات دہندگان‘ کا خطرہ: پوپ فرانسس
’پوپ فلسطینیوں اور امن سے محبت کرتے ہیں‘
اس انٹرویو میں، جو پاپائے روم فرانسس کا کسی جرمن جریدے کو دیا گیا پہلا تفصیلی انٹرویو تھا، ’دی سائٹ‘ کی طرف سے دنیا کے کروڑوں کیتھولک مسیحی باشندوں کے روحانی پیشوا سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آیا خود انہیں بھی کبھی خدا کے وجود پر شبہ ہوا ہے؟ اس پر پوپ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’میں بھی خالی پن کے ایسے لمحات سے واقف ہوں۔‘‘
ساتھ ہی پاپائے روم نے اسی سوال کے جواب کے تسلسل میں کہا کہ بحرانوں کے ادوار اپنے اندر انسانوں کے لیے ان کی مزید نشو ونما کا موقع بھی لیے ہوتے ہیں۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا، ’’کوئی ایسا باایمان انسان، جسے اس بات (خدا کے وجود پر شبے) کا تجربہ نہیں ہوتا، بلوغت کا ضرورت مند بچہ ہی رہتا ہے۔‘‘
اس انٹرویو میں پوپ فرانسس نے یہ بھی کہا کہ وہ پاپائے روم کے عہدے اور حیثیت کے حوالے سے پائی جانے والی ایک طرح کی طلسمی ساکھ یا cult کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ پوپ فرانسس کے بقول وہ خود بھی کسی بھی دوسرے انسان کی طرح کے ایک ایسے شخص ہیں، جو باعقیدہ ہے۔
کلیسائے روم کے سربراہ کے مطابق، ’’میں خود کو کوئی خاص انسان نہیں سمجھتا۔ میں گناہ گار ہوں، میں بھی غلطی کر سکتا ہوں۔‘‘ کلیسائے روم کے مذہبی سربراہ کا یہ بیان اگرچہ مسیحی عقیدے کے حامل کسی انسان کے طور پر ان کی عاجزی اور انکساری کو ظاہر کرتا ہے تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ کیتھولک مسیحیوں کی نظر میں پاپائے روم کی شخصیت روحانی اعتبار سے اتنی مقدس ہوتی ہے، کہ وہ کوئی غلطی نہیں کر سکتے۔
ہیمبرگ سے شائع ہونے والے ہفتے روزہ جریدے ’دی سائٹ‘ کے ساتھ اس انٹرویو میں پوپ فرانسس نے یہ بھی کہا کہ وہ سال رواں کے دوران جو متعدد غیر ملکی دورے کریں گے، اس دوران وہ جنوبی ایشیا میں بھارت اور بنگلہ دیش بھی جائیں گے۔