خسرہ براعظم افریقہ میں وبائی شکل اختیار کرتا ہوا
18 اگست 2010![](https://static.dw.com/image/561430_800.webp)
طبی ماہرین کے مطابق اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کی جانے والی ویکسینیشن کے نتیجے میں ڈرامائی کامیابی حاصل ہوئی تھی تاہم اس کے بعد بعض ملکوں میں اس سلسلے میں مختص کئے جانے والے فنڈز اور پالیسیوں میں اس سے بچاؤ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
خسرے پر نظر رکھنے والی ایک عالمی تنظیم Measles Initiative کے مطابق سال 2008ء کے دوران دنیا بھر میں خسرے کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 64 ہزار تھی جو کہ سال 2000ء کے مقابلے میں 78 فیصد کم تھی۔ سن 2000ء میں خسرہ سات لاکھ 33 ہزار ہلاکتوں کا سبب بنا تھا۔
بچوں کی بہبود کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے UNICEF نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خسرے کے سلسلے میں سیاسی اور معاشی کوششوں کی عدم موجودگی میں اس متعدی بیماری پر قابو پانے میں حاصل کردہ کامیابی کا تمام تر اثر زائل ہوسکتا ہے۔ یونیسف کے مطابق اس طرح سال 2010ء سے 2013ء کے دوران خسرے کی وجہ سے دنیا بھر میں17 لاکھ ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
یونیسف کے ایک ڈائریکٹر آندریا گے کے مطابق خسرہ اس قدر متعدی مرض ہے کہ اگر اس سے ذرا سا بھی اغماض برتا جائے تو یہ نہایت تیزی سے پھیلتا ہے۔
افریقہ ان دنوں گزشتہ ایک دہائی کے دوران خسرے کی خطرناک ترین وبا کا شکار ہے اور اس سے رواں برس اب تک 14 سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ افریقہ میں ہونے والی حالیہ ہلاکتیں گوکہ بھارت میں خسرے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں تاہم اگر اس بیماری پر قابو کرنے کے لئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو یہ وائرس انتہائی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور بہت زیادہ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔ خسرے کی وجہ سے سال 2008ء کے دوران ہونے والی بچوں کی کل ہلاکتوں میں سے 75 فیصد بھارت میں واقع ہوئی تھیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق افریقہ میں حالیہ برس اب تک 28 ممالک اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ زیادہ متاثر ہونے والے چند ممالک میں مالاوی، جنوبی افریقہ، زامبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔
رپورٹ : افسر اعوان/خبر رساں ادارے
ادارت : گوہر نذیر گیلانی