خسرے سے بچاؤ: غافل والدین کو ہزاروں یورو جرمانہ، نیا قانون
6 مئی 2019
جرمنی میں خسرے کی بیماری کے خاتمے کے لیے ملکی حکومت ایک ایسا نیا قانون بنا رہی ہے، جس کے تحت اپنے بچوں کی بروقت ویکسینیشن نہ کرانے والے اور غفلت کے شکار والدین کو ڈھائی ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
اشتہار
چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایک ایسے نئے قانون کا مسودہ منظوری کے لیے پیش کر دیا ہے، جس کے تحت اپنے بچوں کی خسرے کے خلاف ویکسینیشن نہ کروانے والے والدین کو 2500 یورو (2800 امریکی ڈالر کے برابر) تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
خسرے کا باعث بننے والا وائرستصویر: Imago/Science Photo Library
وزیر صحت کے مطابق اس بہت زیادہ جرمانے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جرمنی سے خسرے کی بیماری کا جلد از جلد خاتمہ ہو سکے۔
مسودہ قانون کے مطابق جو والدین اپنے بچوں کی خسرے کے خلاف ویکسینیشن سے انکار کریں گے، انہیں ڈھائی ہزار یورو تک جرمانہ کیے جانے کے علاوہ ان کے بچوں کو بھی، اگر وہ کسی کنڈر گارٹن میں جاتے ہوں، وہاں سے خارج کر دیا جائے گا۔
ژینس شپاہن نے جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کو بتایا کہ ان کی اس قانونی تجویز کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جرمنی میں تمام والدین کو یہ علم ہو کہ انہیں اپنے بچوں کو خسرے کی بیماری سے بچانے کے لیے کب کیا کرنا ہے۔
ویکسینیشن کی موجودہ شرح ترانوے فیصد
جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا کے سات بڑے صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے والے جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی ہے، 93 فیصد چھوٹے بچوں کی اوائل عمری سے ہی باقاعدگی سے مہلک اور متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کی تو جاتی ہے، تاہم یہ شرح اب بھی کم از کم 95 فیصد کی اس شرح سے کم ہے، جس کی ماہرین صحت عام طور پر سفارش کرتے ہیں۔
گنی کیڑوں کی بیماری: قریب الاختتام
سن 1986 میں 36 لاکھ افراد گنی کیڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ بیماری ایشیا اور افریقہ کے اکیس ملکوں میں پائی جاتی تھی۔ اب یہ پیراسائٹ قسم کے کیڑوں سے پھیلنے والی بیماری دنیا بھر سے ختم ہونے کے قریب ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
دنیا سے ختم ہونے والی بیماری
گنی کیڑے پیراسائٹ قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤثر آگہی کی مہم کی وجہ سے یہ بیماری دنیا بھر میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سن 2018 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افریقی ملک چاڈ میں اس کے تین مریض سامنے آئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Bazemore
کارٹر سینٹر
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ مرکز نے سن 1996 میں گنی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف انٹرنیشنل مہم شروع کی۔ اس مہم کی وجہ سے لاکھوں افراد کو اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا گیا۔ چیچک کے بعد گنی کیڑوں کی بیماری کا خاتمہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ واحد بیماری ہے، جس کے لیے کوئی ویکسین یا دوا تیار نہیں کی گئی۔
تصویر: Carter Center/Louise Gubb
آلودہ پانی کا استعمال
گنی کیڑوں کی بیماری کا جرثومہ یا پیراسائٹ اُسی وقت جنم لیتا ہے جب انسان بغیر فلٹر کے پانی پیتا ہے یا پھر کھڑے گندے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گندے پانی میں گنی کیڑے کا لاروا پایا جاتا ہے جو پینے سے انسانی جسم میں داخل ہو کر بیماری کا باعث بنتا ہے۔ بدن میں داخل ہونے والا کیڑا نظام ہضم کا حصہ بنتے ہوئے کسی پھوڑے کے اندر سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی لمبائی 60 سے 100 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
کیڑے کا نمودار ہونا
انسانی بدن میں داخل ہونے والے گنی ورم کا نر مر جاتا ہے اور مادہ تقریباً ایک سال بعد انسانی جسم کی ٹانگ یا پاؤں پر بننے والے ایک پھوڑے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھوڑا انتہائی شدید درد کا باعث ہوتا ہے۔ بیماری میں مبتلا شخص شدید درد والے پھوڑے کو پانی سے دھونے کی کوشش کرتا تھا اور اس باعث لاکھوں لاروے پانی میں چلے جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/W. Dolder
شدید نقاہت پیدا کرنے والی بیماری
بنیادی طور پر گنی ورم بیماری کے لیے کوئی دوا یا مدافعتی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ اس کیڑے کو روزانہ کی بنیاد پر انسانی بدن سے باہر کھینچا جاتا ہے اور اس کے مکمل باہر نکالنے پر کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں مریض کو شدید نقاہت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے مریض کو کسی اور بیکٹیریا کی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ مریض بے بس ہو جاتا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
کمیونٹی پروگراموں کا سلسلہ
گنی ورم کی بیماری پر کنٹرول بنیادی طور پر حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے پیدا ہوا۔ لوگوں کو صاف پانی پینے کی تلقین کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بیماری میں مبتلا افراد کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے اجتناب کرنے پر بھی بیماری کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Bazemore
Only 30 cases in 2017
سن 2017 میں صرف تیس مریض
سن 1986 میں جس بیماری کے چھتیس لاکھ مریض تھے اور اکتیس برس بعد ایسے مریضوں کی تعداد تیس ہو کر رہ گئی۔ اس بیماری کے خلاف آگہی دینے کی بین الاقوامی مہم سے اس پر کنٹرول پیدا ہوتا چلا گیا۔ سن 2017 میں افریقی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں اس مرض کے صرف تیس مریض سامنے آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Quesada
گنی ورم بیماری میں مبتلا کتے
سن 2012 میں پہلی مرتبہ کسی کتے میں گنی کیڑے کی بیماری پائی گئی۔ اس سے عالمی سطح پر شدید خدشات بھی پیدا ہوئے۔ چاڈ کے دیہاتی علاقوں کے گندے پانی کے جوہڑوں میں پائی جانے والی مچھلیوں کو کھانے سے کتوں میں یہ بیماری منتقل ہوئی۔ ان مچھلیوں میں گنی کیڑے کا لاروا پایا گیا۔ عام لوگوں کو اس مناسبت سے مفید مشورے دیے گئے اور اب یہ مسلئہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
جرمن وزیر صحت کے مطابق، ’’خسرے کی ویکسینیشن کے بغیر چھوٹے بچوں کو کنڈرگارٹن سے خارج کر دینے یا انہیں وہاں کوئی جگہ نہ دینے کی تجویز کا مقصد یہ ہے کہ کئی کنڈر گارٹنز میں، جو ڈے کئیر سینٹر بھی ہوتے ہیں، ملازمت پیشہ والدین کے دس ماہ سے کم عمر کے بچوں کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ایسے شیر خوار بچے عام طور پر اتنے کم عمر ہوتے ہیں کہ ان کی خسرے سمیت تمام بڑی بیماریوں کے خلاف ممکنہ ویکسینیشن نہیں ہوئی ہوتی۔ ایسی صورت میں انہیں کنڈرگارٹنز جانے کی اجازت دینے کا مطلب ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ہو گا۔ اور یہ صورت حال جرمنی سے خسرے کے مکمل خاتمے کی کوششوں میں بھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس مسودہ قانون میں اسکول جانے کی عمر کے بچوں کے لیے خسرے کی ویکسینیشن کو یقینی بنانے کے لیے ایک علیحدہ تجویز دی گئی ہے، کیونکہ جرمنی میں چھ سال سے زائد عمر کے ہر بچے کے لیے اسکول جانا لازمی ہے۔ اس وقت اس قانونی مسودے پر وفاقی کابینہ کی سطح پر بحث جاری ہے۔ یہ نیا قانون اسی سال منظوری کے بعد مارچ 2020ء سے نافذالعمل ہو جائے گا۔
خسرے کی بیماری کتنی مہلک
عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ برس دنیا کے کئی خطوں میں خسرے کے وبائی پھیلاؤ کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ 2018ء میں دنیا بھر میں اس بیماری کی وجہ سے ایک لاکھ چھتیس ہزار انسان ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس خسرے سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 2017ء کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ رہی تھی۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس دوران خسرے کی وبائیں پھوٹ پڑنے کے واقعات کی وجہ ان والدین کی غفلت بنی، جنہوں نے اپنے بچوں کی لازمی ویکسینیشن نہیں کرائی تھی۔ جرمنی میں بھی کئی وفاقی صوبوں میں خسرے کی محدود وبائیں دیکھنے میں آ چکی ہیں۔ سال رواں کے پہلے دو ماہ کے دوران پورے ملک میں خسرے کے 170 نئے کیسز رجسٹر کیے گئے تھے۔
م م / ک م / ڈی پی اے، اے ایف پی
جانور سے انسان اور پھر وبا تک
عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ایبولا کی ہولناک وبا چمگادڑوں کی وجہ سے پھیلی ہے، جن کے جسم میں اس کا وائرس ہوتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں تک اس لیے پہنچتا ہے کہ افریقہ میں چمگادڑ کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وائرس پھیلانے والے
افریقہ میں مختلف قسموں کی چمگادڑوں، خاص طور پر فلائنگ فوکس کہلانے والی چمگادڑ کے جسم میں مختلف طرح کے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن میں ایبولا کا وائرس بھی شامل ہے۔ خود ان جانوروں کے لیے بے ضرر یہ وائرس انسانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں لوگ بڑے سائز کی چمگادڑ کو اُس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتے ہیں اور یوں یہ وائرس آسانی سے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خطرہ گھات لگائے ہوئے
جریدے ’پی ایل او ایس نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز‘ میں محققین نے کہا ہے کہ چمگادڑوں کی کئی اَقسام کے اندر یا تو ایک طویل عرصے سے یہ وائرس موجود تھا اور وہ ابھی تک اتفاق سے انسانوں تک نہیں پہنچا تھا یا پھر اس وائرس کی حامل کوئی چمگادڑ وسطی افریقہ سے اُن علاقوں تک پہنچی ہے، جہاں اب ایبولا ایک وبا کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تصویر: imago
وائرس آگے پہنچانے والے جانور
بعض دفعہ چمگادڑ مختلف طرح کے پھل کھاتے ہیں اور اُنہیں پوری طرح سے ہضم کرنے سے پہلے ہی باہر اُگل دیتے ہیں۔ جب ہرن اور دیگر جانور ان پھلوں کی نیچے گری ہوئی باقیات کو کھاتےہیں تو یہ وائرس اُنہیں بھی متاثر کرتا ہے اور وہ آگے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
تصویر: DW
محققین کا انتباہ
افریقہ میں جنگلی جانوروں کو شکار کرنا اور اُن کا گوشت کھانا ایک معمول کی بات ہے۔ ’بُش مِیٹ‘ کے طور پر ان جانوروں کا گوشت بازاروں میں کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔ محققین خبردار کر رہے ہیں کہ جنگلی جانوروں میں ایسے ایسے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن کا انسان کو ابھی اندازہ تک بھی نہیں ہے۔
تصویر: DW
وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ
ان جانوروں کے گوشت کو کاٹنے اور تیار کرنے کے عمل میں بے پناہ خطرات موجود ہیں۔ ان جانوروں کے خون یا اُن کے جسم میں موجود دیگر لیس دار مادوں کے ساتھ رابطے میں آنے کی صورت میں انسان اس طرح کے وائرس کا آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ یورپ میں بھی، جہاں چمگادڑوں میں محض چند ایک خطرناک وائرس ہی پائے گئے ہیں، ننگے ہاتھوں کے ساتھ انہیں چھُونے سے منع کیا جاتا ہے۔