خسرے کی ویکسین سے خاتون میں کینسر کا خاتمہ
17 مئی 2014اس حوالے سے تحقیقی رپورٹ طبی جریدے ’مایو کلینک پروسیڈنگز‘ میں بدھ 15 مئی کو شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مصنف اور کینسر کا یہ علاج تیار کرنے میں شریک طبی ماہر اسٹیفن رُسل کے مطابق، ’’ہم نے اس بیماری کا ایک ایسا علاج دریافت کر لیا ہے جو آپ محض ایک مرتبہ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کینسر میں طویل مدت کے لیے کمی واقع ہو جاتی ہے۔‘‘ رُسل مزید لکھتے ہیں، ’’ہمارا یقین ہے کہ اس کا ایک انجیکشن بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
49 سالہ خاتون میں ہڈیوں کے کینسر یا بون میرو کینسر کی ایک قسم کی تشخیص ہوئی تھی جسے ’ملٹی پل مائیلوما‘ multiple myeloma کہا جاتا ہے۔ بون میرو کے سبب پھیلنے والے کینسر کے باعث اس خاتون کے ماتھے پر بھی ٹیومر یا کینسر کی رسولی بن گئی تھی۔
اس خاتون کو ’انٹرا وینس‘ (intravenous) یا رگ کے اندر لگائے جانے والے انجیکشن کے ذریعے خسرے کی ویکسین MV-NIS کی خوراک دی گئی۔ یہ ویکسین کینسر کے خلیوں یا ’مائیلوما پلازما سیلز‘ کے لیے زہریلے اثرات رکھتی ہے۔ خسرے کے علاج کے لیے اس ویکسین کے 10 ہزار انفیکشس یعنی وبائی یونٹس دیے جاتے ہیں۔ تاہم متاثرہ خاتون کو اس دوائی کے ایک ارب انفیکشس یونٹس دیے گئے۔
رُسل اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں، ’’خاتون پر اس کے حیران کُن اثرات ظاہر ہوئے۔‘‘ بعض ابتدائی سائیڈ ایفکٹس کے ساتھ جن میں سر میں ہونے والا شدید درد بھی شامل تھا، خاتون کے ماتھے پر موجود رسولی غائب ہو گئی اور اس کے بون میرو یا ہڈیوں کے گودے میں موجود کینسر کے خلیے بھی ختم ہو گئے۔
رُسل کے مطابق نو ماہ تک کیسنر غائب رہا تاہم اس کے بعد خاتون کے ماتھے پر ٹیومر دوبارہ ظاہر ہوا تو ڈاکٹروں نے ریڈیوتھیراپی کے ذریعے اس کا علاج کر دیا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق یہ خاتون اب 50 برس کی ہے اور صحت مند ہے اور پرامید ہے کہ اگلے ماہ جب وہ اپنے ڈاکٹر کے پاس جائے گی تو رپورٹس سے یہی ثابت ہو گا کہ وہ ابھی تک کینسر سے بچی ہوئی ہے۔
اس اسٹڈی میں شامل دوسری خاتون پر بھی اس دوائی کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے تاہم اس کی ٹانگوں میں موجود کینسر کی بڑی رسولیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں۔ مگر ایڈوانسڈ امیجنگ اسٹڈیز کے ذریعے ڈاکٹر اس خاتون کے جسم میں خسرے کے وائرس کا راستہ معلوم کرنے میں کامیاب رہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ وائرس ان علاقوں پر حملہ کر رہے ہیں جہاں ٹیومر بڑھ رہے تھے۔
ویکسین کی اب تک ممکن سب سے زیادہ طاقتور خوراک کے حوالے سے کی جانے والی اس اولین تحقیق میں شامل دونوں خواتین ماضی میں خسرے سے کافی حد تک محفوظ رہی تھیں اور ان کا کیسنر اس اسٹیج تک پہنچ چکا تھا جہاں علاج کی کوئی دوسری صورت ممکن نہیں رہی تھی۔
اوٹاوہ ہاسپٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ’سنٹر فار انوویٹیو کینسر ریسرچ‘ کے محقق جان بیل John Bell نے ان نتائج کو حیران کن قرار دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔