خطرناک جرمن نيو نازی گروپ غير ملکيوں کو قتل کرتا رہا
17 نومبر 2011نيو نازيوں کا سياسی مرکز جرمنی کی ایک جماعت اين پی ڈی سمجھی جاتی ہے، جو باقاعدہ انتخابات ميں بھی حصہ ليتی ہے۔ اب اس پارٹی پر پابندی لگانے کے مطالبات پھر سے کيے جا رہے ہيں۔
اب بھی اس خطرناک نيو نازی گروپ کے بعض جرائم کا انکشاف حکام کی تحقيقات سے نہيں بلکہ اس وجہ سے ہوا کہ دو مجرموں نے بينک لوٹنے کی کوشش ميں ناکام ہونے کے بعد سزا سے بچنے کے ليے خود کشی کر لی۔ اگر یہ نيو نازی مجرم بينک لوٹ کر بچ نکلنے ميں کامياب ہو جاتے، تو قتل کی يہ وارداتيں جاری رہتيں۔
جرمنی کی نيشنل ڈیموکریٹک پارٹی يا اين پی ڈی پر پابندی لگانے يعنی اُسے کالعدم قرار ديے جانے کے سلسلے ميں انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس پر متفق ہيں کہ اگرچہ اس کے ليے قانونی وجوہات کافی حد تک موجود ہيں ليکن اس کو حقيقت کی شکل دينا بہت مشکل ثابت ہو گا۔ ايک رکاوٹ پابندی پر اختلاف رائے بھی ہے۔ مثلاً انتہا پسندی کے ايک محقق Eckhard Jesse کے خيال ميں اين پی ڈی پر پابندی سے تشدد پر آمادہ دائيں بازو کی انتہا پسندی پر قابو پانا ممکن نہيں بلکہ اس کا الٹا اثر ہو گا کيونکہ يا تو نازی رجحانات والے ايک نئی پارٹی بنا ليں گے اور يا پھران کا ايک سخت گير گروپ زير زمين چلا جائے گا۔
ماہر سياسيات کرسٹوف بُٹر ويگے کا کہنا ہے کہ صرف اين پی ڈی پر پابندی پر اکتفا کرنا اور سياسی جماعتوں اور سياستدانوں کی طرف سے اسے اپنے مقاصد اور پروپيگنڈے کے ليے استعمال کرنا درست نہيں ہو گا بلکہ ايک وسيع تر آگہی اور شعور پيدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پارٹی کی قوت محرکہ يعنی اس کے نظريات کی مذمت کی ضرورت ہے۔ اس منفی قوم پرستی کی مسلسل اور کھل کر مذمت کی جانا چاہيے کہ کوئی فرد جرمن ہونے کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بہتر اور برتر اور صحيح نسل کا باشندہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سياستدانوں کو ايسے غير محتاط بيانات سے گريز کرنا چاہيے، جن سے نسل پرستانہ رجحانات رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
انتہا پسندی سے متعلقہ امور کے ايک اور ماہر ہايو فُنکے کے مطابق ايک سياسی پارٹی ہونے کی حيثيت سے ٹيکس کی رقوم کی مدد سے اپنے انسان دشمن نظريات پھيلانے والی اين پی ڈی کو ممنوع قرار دينے سے اس کے دوسری شکل اختيار کر لينے کا خطرہ محدود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی ميں ايسی مجرمانہ نظريات رکھنے والی انجمنيں کھل کر کام کر رہی ہيں، جو خود کو نازی نظريات کا پرستار کہتی ہيں۔ ان کو بند کرنا کہيں زيادہ آسان ہے ليکن ايسا نہيں کيا جا رہا ہے۔ معاشرے ميں نسل پرستانہ لغويات کے خلاف ايک وسيع بنياد والی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ: گُنٹر بِرکن اشٹوک / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک