1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتلبنان

خطے میں مزید کشیدگی، لبنان کے لیے بین الاقوامی پروازیں معطل

29 جولائی 2024

حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافے کے بعد کئی ایئر لائنز نے بیروت کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے بقول ایک راکٹ حملے میں بارہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد حزب اللہ کو ’جواب‘ دیا جائے گا۔

بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ
بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹتصویر: Mohamed Azakir/REUTERS

اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد متعدد ایئر لائنز نے آج پیر 29 جولائی کے روز لبنان کے لیے اپنی مسافر پروازیں معطل کر دیں۔ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر لبنان کے لیے اپنے فلائٹ آپریشن معطل کرنے والی فضائی کمپنیوں میں جرمنی، فرانس اور اردن کی قومی ایئر لائنز سمیت متعدد ایئر لائنز شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر ہفتے کے روز کیے گئے مہلک راکٹ حملے کے بعد حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔

گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے کے قصبے مجدل شمس میں واقع ایک فٹ بال گراؤنڈ پر کیے گئے اس راکٹ حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن کی عمریں دس سے سولہ سال کے درمیان تھیں۔

اسرائیل اور امریکہ نے اس حملے کا الزام لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ پر عائد کیا ہے، جس نے پچھلے سال اکتوبر کے اوائل میں غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی افواج کے ساتھ تقریباﹰ روزانہ کی بنیادوں پر فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے۔

بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مسافروں کی ایک تصویرتصویر: Houssam Shbaro/Anadolu/picture alliance

حزب اللہ نے مجدل شمس راکٹ حملے کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔ تاہم جس دن  گولان کے پہاڑی علاقے پر یہ حملہ کیا گیا تھا، اسی دن اس گروپ نے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر متعدد حملوں کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

لبنانی وزیر خارجہ عبد اللہ بو حبیب نے کہا ہے کہ سفارتی سرگرمیوں میں تیزی سے متوقع اسرائیلی ردعمل کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع یوآوگیلنٹ نے ''دشمن کو سختی سے مارنے‘‘ کی دھمکی دی تھی۔ بوحبیب نے ملکی نشریاتی ادارے الجدید کو اتوار کو دیر گئے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ''اسرائیل محدود انداز میں پیش رفت کرے گا اور حزب اللہ محدود طریقے سے اس کا جواب دے گی، یہ وہ یقین دہانیاں ہیں جو ہمیں موصول ہوئی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، فرانس اور دیگر ممالک اس کشیدگی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی کا بھی کہنا تھا، ''لبنان کی سلامتی اور اسے خطرات سے بچانے کے لیے بین الاقوامی، یورپی اور عرب فریقوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم کا راکٹ حملے سے متاثرہ علاقے کا دورہ

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کے روز گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے کے قصبے مجدل شمس میں اس مقام کا دورہ کیا، جہاں راکٹ گرنے سے اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا، ''حزب اللہ اس کی بھاری قیمت ادا کرے گی۔‘‘

نیتن یاہو کے دفتر  کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا، ''اسرائیلی ریاست اس واقعے کو یوں ہی نہیں جانے دے گی اور نہ ہی وہ ایسا کر سکتی ہے۔ ہمارا ردعمل ہو گا اور سخت ہو گا۔‘‘

اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر ہفتے کے روز کیے گئے مہلک راکٹ حملے کے بعد کا منظرتصویر: Hassan Shams/AP/picture alliance

وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق نیتن یاہو نے اتوار کو اپنی سکیورٹی کابینہ کا ایک اجلاس بلایا، جس کے ارکان نے ''وزیر اعظم اور وزیر دفاع کو (اس حملے کا) جواب دینے کے طریقے اور وقت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا۔‘‘

حزب اللہ کے دو ارکان ہلاک

دوسری جانب لبنان میں حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس گروپ نے جنوبی اور مشرقی لبنان میں اپنی کچھ پوزیشنیں خالی کر دی ہیں۔ حزب اللہ نے پیر کے روز کہا کہ اس نے  اپنے دو جنگجوؤں کے ''قتل‘‘ کے بعد ایک اسرائیلی فوجی ہدف پر ''درجنوں کاٹوشا راکٹ‘‘ داغے ہیں۔ اس گروپ کے قریبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ  حزب اللہ کے یہ دونوں ارکان لبنان کے جنوبی گاؤں میس الجبل پر ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔

اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جاری پر تشدد جھڑپوں میں اب تک لبنان میں کم از کم 529 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنگجو تھے اور 104 عام شہری تھے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق لبنان کی جانب سے کیے گئے حملوں میں اب تک  24 شہری اور 22 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

لبنان میں حزب اللہ ملیشیا عسکریت پسند فلسطینی گروہ حماس کی اتحادی ہے۔ یہ حماس کا سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیا گیا دہشت گردانہ حملہ ہی تھا، جس کے بعد سے غزہ کی جنگ جاری ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ  اس کے حملے حماس کی حمایت میں ہیں اور اگر غزہ میں جنگ بندی ہو جاتی ہے تو اسرائیل کے خلاف حملے روک دیے جائیں گے۔

اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل اتنا مشکل کیوں؟

15:09

This browser does not support the video element.

ش ر⁄ م ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں