خطے کی صورت حال، روسی وزیر خارجہ کا دورہ اہمیت اختیار کر گیا
عبدالستار، اسلام آباد
6 اپریل 2021
ایران اور چین کے معاہدے، بیجنگ اور ماسکو میں بڑھتی ہوئی قربت اور خطے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے پیش نظر روسی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اشتہار
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آج منگل کو اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، جہاں بہت سے تجزیہ نگار اس دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ملکی میڈیا میں بھی اس دورے کا خوب چرچا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں میں کہا کہ یہ کسی روسی وزیر خارجہ کا نو سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔
حالیہ دور میں کئی ممالک کے سربراہان نے شاندار اور پرشکوہ محلات تعمیر کروائے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال روس کے صدر ولادمیر پوٹن کا بحیرہ اسود کے ساحل پر تعمیر کیا جانے والا عالیشان محل ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
صدر پوٹن کا محل
اس کا انکشاف روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے ایک ویڈیو پوسٹ میں کیا جو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کو نوے ملین سے زائد دفعہ یو ٹیوب پر دیکھا جا چکا ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے پر تعمیر کیے گئے اس محل کی قیمت ایک ارب یورو سے زیادہ ہے۔ ناوالنی کے مطابق یہ محل مناکو کے شہزادے کے محل سے بھی 40 گنا بڑا ہے۔ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محل کئی کاروباری حضرات کی مشترکہ ملکیت ہے جن کے نام افشا کرنا ممکن نہیں۔
تصویر: Navalny Life youtube channel/AP Photo/picture alliance
مراکش کا شاہی محل
یہ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے دس بارہ محلات میں سے ایک محل ہے۔ کرپشن پر کی کتاب ’کنگ آف تھیوز‘ (چوروں کا بادشاہ) کے مطابق ان محلوں کا روزانہ خرچ لگ بھگ بارہ لاکھ یورو ہے۔ یہ محل انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں بادشاہ کے بچوں کے لیے ایک الگ اسکول ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
اردوآن کا محل
صدر رجب طیب اردوآن نے پندرہ ملین یورو سے یہ ایک مضبوط اور عالیشان محل تعمیر کرایا۔ یہ محل ’ون لیک‘ کے شمال میں بنایا گیا ہے۔ اس کا طرز تعمیر قدیمی قطب آباد محل جیسا ہے۔ یہ محل سلجوک حکمران سلطان علی الدین نے تیرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ محل کی تعمیر پرعدالتی پابندی تھی جسے ترک صدر نے خارج کرکے اپنے لیے یہ تیسرا پرآسائش محل بنوایا۔
برونائی کے دارالحکومت سری بھگوان میں دنیا کا سب سے بڑا محل واقع ہے۔ اس کی تعمیر سن 1984 میں مکمل ہوئی۔ سلطان حسن البلقیہ کا یہ محل دو لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس میں ایک ہزار آٹھ سو کمرے، ڈھائی سو باتھ روم اور اوپر نیچے جانے کے لیے سترہ لفٹیں ہیں۔ اس محل کی لاگت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
تصویر: Albert Nieboer/RoyalPress/dpa/picture alliance
راشٹر پتی بھون، نئی دہلی
بھارت کے صدر کی رہائش گاہ کی تعمیر سترہ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ سن 1950 سے یہ بھارت کے صدر کی رہائش گاہ یا راشترپتی بھون کہلاتی ہے۔ اس میں تین سو چالیس کمرے اور کئی ہال ہیں۔ اس کے کوریڈورز کی مجموعی لمبائی ڈھائی کلو میٹر بنتی ہے۔ اس سے ملحقہ مغل باغ اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک سو فُٹ بال گراؤنڈز سما سکتے ہیں۔
تصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance
ابو ظہبی کا الوطن محل
الوطن محل باغات میں گِھرا ہوا ہے اور اپنے سفید گنبدوں کی وجہ سے انتہائی پرشکوہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کل رقبہ تین لاکھ ستر ہزار مربع میٹر ہے۔ سنگ مرمر کی دیواریں اور سونے کے منقش دروازے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ اس محل میں متحدہ عرب امارات کے حکمران اور ولی عہد کے علاوہ کابینہ کے ارکان کی رہائش گاہیں ہیں۔
تصویر: Erich Meyer/euroluftbild.de/picture alliance
تاجک صدارتی محل
وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کا صدارتی محل ایک قومی نشان اور سفید ہونے کی وجہ سے ’وائٹ ہاؤس‘ کہلاتا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ میں دنیا کی دوسری بلند ترین فائبر گلاس کی چھت ہے، جو کہ ایک سو پینسٹھ میٹر بلند ہے۔
تصویر: Halil Sagirkaya/AA/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
قریشی نے کہا، ''روس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے، جس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان دیکھ رہا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ معاشی اور دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسلام آباد نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی ماسکو کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ بھی روس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ روس بھارت کو افغانستان میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنے پر بھی آمادہ کر سکتا ہے۔‘‘
روسی وزیر خارجہ لاوروف اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
مشرق کی جانب رخ
سرد جنگ کے دور میں پاکستان اور اس وقت کے سوویت یونین کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ لیکن اس جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات بتدریج بہتر تو ہوتے رہے مگر ان میں کوئی خاص گرم جوشی دیکھنے میں نا آئی۔ آخری مرتبہ روسی وزیر خارجہ نے 2012ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اسی سال صدر پوٹن نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تھا۔
میخائل گورباچوف نوے برس کے ہو گئے
گوربی، وہ نام جس سے جرمن شہری سابق روسی رہنما میخائل گورباچوف کو پکارتے ہیں۔ وہ سوویت یونین کے پہلے اور آخری صدر ہیں جو جرمنی میں آج بھی مقبول ہیں۔
تصویر: Vitaly Armand/AFP/Getty Images)
جرمنی میں گورباچوف کی یادگار
گوربی، وہ نام جس سے جرمن شہری سابق روسی رہنما میخائل گورباچوف کو پکارتے ہیں۔ وہ سوویت یونین کے پہلے اور آخری صدر ہیں جو جرمنی میں آج بھی مقبول ہیں۔
تصویر: picture alliance / Paul Zinken/dpa
گورباچوف اور جرمن
یہ اس وقت کے جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل اور گورباچوف کی پہلی ایک ساتھ تصویر ہے۔ مارچ انیس سو پچاسی میں جرمن چانسلر ماسکو میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کونسٹانٹن شرنینکو کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ گورباچوف نے کونسٹانٹن ہی کا خالی ہونے والا عہدہ سنبھالا تھا۔ یہیں سے دونوں رہنماؤں کے درمیان بہتر تعلقات کا آغاز ہوا۔
تصویر: Tass/dpa/picture-alliance
ولی برانٹ اور میخائل گورباچوف ماسکو میں
ولی برانٹ سن انیس سو انسٹھ سے انیس سو چوہتر تک جرمن چانسلر تھے۔ ان کے دور میں مغربی جرمنی نے اپنے مشرقی پڑوسی ملکوں کے ساتھ رشتے بہتر کرنے کا آغاز کیا اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات معمول پر آئے۔ اننہیں ان کی انہیں خدمات کے باعث سن انیس سو اکہتر میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ گورباچوف کو یہ انعام انیس سو نوے میں ملا۔
تصویر: V. Musaelyan/AFP/Getty Images
بون شہر میں پرستاروں کے درمیان
میخائل گورباچوف سن انیس سو نواسی میں دیوار برلن کے انہدام سے کچھ ماہ قبل ایک سرکاری دورے پر جرمنی پہنچے۔ بون شہر کے وسط میں جرمن شہریوں کی جانب سے ان کا نہایت پرجوش استقبال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kleefeldt
برادرانہ بوسہ
اسی سال اکتوبر میں گورباچوف نے مشرقی برلن کا دورہ کیا جہاں مشرقی جرمنی کے قیام کی چالیسویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ اس موقع پر مشرقی جرمنی کے رہنما ہونیکر نے انہیں 'خصوصی سوشل بوسے' کے ساتھ خوش آمدید کہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوہل اور گوبارچوف شمالی قفقاذ میں
جرمنی کے ممکنہ اتحاد سے متعلق مذاکرات جولائی انیس سو نوے میں شمالی قفقاذ میں ہوئے۔ اس بات چیت میں جرمنی کے مستقبل کے حوالے سے حتمی معاہدہ عمل میں آیا۔ اس معاہدے کو ٹو پلس فورمعاہدہ کہا جاتا ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے بعد ستمبر میں اس پر سوویت یونین، امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بھی دستخط کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اچھے پڑوسی بن کر رہنے کا عزم
نومبر انیس سو نوے میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد گورباچوف جرمنی کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی رہنما تھے۔ ان کے اس دورے میں دونوں ملکوں نے اچھ، اشتراک عمل اور تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدر ٹاک شو میں
سن انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور گورباچوف صدر نہ رہے۔ انیس سو بانوے میں انہوں نے گورباچوف فاؤنڈیشن قائم کی۔ انیس سو چھیانوے میں وہ اپنے اہلیہ کے ہمراہ جرمنی آئے تو انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کی۔
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں، جنہیں کئی تجزیہ نگار بہت دلچسپی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس عمل کا مظہر قرار دیتے ہیں کہ اب پاکستان کی توجہ مشرق کی طرف ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ مشرق کی طرف دیکھنے کا عمل پاکستان کے لیے مثبت ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ لہٰذا اب بہتر یہ ہے کہ پاکستان مشرق کی طرف دیکھے۔ اس کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اب وہ روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان، ایران، روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیا کے ممالک مل کر ایک نیا سیاسی بلاک قائم کر سکتے ہیں۔‘‘
اشتہار
محور افغانستان ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی امور کی تجزیہ نگار فرحت آصف کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس دورے کا محور افغانستان ہے۔ انہوں نے کہا، ''افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ہونے کو ہے اور ایسی صورت میں وہاں پر سیاسی خلا پیدا ہو سکتا ہے۔ ماضی میں ایسا خلا پیدا ہوا، تو وہ پاکستان اور خطے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔ روسی وزیر خارجہ اسی مسئلے پر بات چیت کے لیے آئے ہیں اور افغان امور کے ایک ماہر بھی ان کے ہمراہ ہیں۔‘‘
دنیا میں سفارت کاری کے سب سے بڑے نیٹ ورک کن ممالک کے ہیں
دنیا میں اقتصادی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے میں سفارت کاری اہم ترین جزو تصور کی جاتی ہے۔ دیکھیے سفارت کاری میں کون سے ممالک سرفہرست ہیں، پاکستان اور بھارت کے دنیا بھر میں کتنے سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Harnik
1۔ چین
لوی انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ عالمی سفارت کاری انڈیکس کے مطابق چین اس ضمن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں چینی سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 276 ہے۔ چین نے دنیا کے 169 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ مختلف ممالک میں چینی قونصل خانوں کی تعداد 98 ہے جب کہ مستقل مشنز کی تعداد آٹھ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
2۔ امریکا
امریکا دنیا بھر میں تعینات 273 سفارت کاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا کے دنیا کے 168 ممالک میں سفارت خانے موجود ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 88 ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ اور دیگر اہم جگہوں پر تعینات مستقل امریکی سفارتی مشنز کی تعداد نو ہے۔
تصویر: AFP/B. Smialowski
3۔ فرانس
فرانس اس عالمی انڈیکس میں 267 سفارتی مشنز کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک فرانس کے 161 سفارت خانے، 89 قونص خانے، 15 مستقل سفارتی مشنز اور دو دیگر سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Valat
4۔ جاپان
جاپان نے دنیا کے 151 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں اور مختلف ممالک کے 65 شہروں میں اس کے قونصل خانے بھی موجود ہیں۔ جاپان کے مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 10 ہے اور دیگر سفارتی نمائندوں کی تعداد 21 ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں جاپان کے سفارتی مشنز کی تعداد 247 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/I. Kalnins
5۔ روس
روس 242 سفارتی مشنز کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 144 ممالک میں روسی سفارت خانے ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 85 ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kremlin Pool
6۔ ترکی
مجموعی طور پر 234 سفارتی مشنز کے ساتھ ترکی سفارت کاری کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 140 ممالک میں ترکی کے سفارت خانے قائم ہیں اور قونصل خانوں کی تعداد 80 ہے۔ ترکی کے 12 مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K. Ozer
7۔ جرمنی
یورپ کی مضبوط ترین معیشت کے حامل ملک جرمنی نے دنیا کے 150 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ جرمن قونصل خانوں کی مجوعی تعداد 61 اور مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 11 ہے۔ جرمنی کے سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 224 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
8۔ برازیل
لاطینی امریکا کی ابھرتی معیشت برازیل کے بھی دنیا بھر میں 222 سفارتی مشنز ہیں جن میں 138 سفارت خانے، 70 قونصل خانے اور 12 مستقل سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: AFP/S. Lima
9۔ سپین
سپین 215 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 115 ممالک میں ہسپانوی سفارت خانے ہیں اور مختلف ممالک کے شہروں میں قائم ہسپانوی قونصل خانوں کی تعداد 89 ہے۔
تصویر: Fotolia/elxeneize
10۔ اٹلی
اٹلی نے 124 ممالک میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ قونصل خانوں کی تعداد 77 ہے جب کہ آٹھ مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔ دنیا بھر میں اٹلی کے مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 209 ہے۔
تصویر: Imago
11۔ برطانیہ
برطانیہ کے دنیا بھر میں مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 205 ہے جن میں 149 سفارت خانے، 44 قونصل خانے، نو مستقل سفارتی مشنز اور تین دیگر نوعیت کے سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: imago/ITAR-TASS/S. Konkov
12۔ بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت مجموعی طور پر 186 سفارتی مشنز کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بارہویں اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت نے 123 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ دنیا بھر میں بھارتی قونصل خانوں کی تعداد 54 ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور آسیان کے لیے خصوصی سفارتی مشن سمیت بھارت کے دنیا میں 5 مستقل سفارتی مشنز بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
28۔ پاکستان
پاکستان مجموعی طور پر 117 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں 28ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے دنیا کے 85 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ پاکستانی قونصل خانوں کی تعداد 30 ہے۔ علاوہ ازیں نیویارک اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے مستقل پاکستانی سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
فرحت آصف کے بقول، ''روس نے حال ہی میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کو مدعو کیا۔ اس کے علاوہ افغانستان کے مسئلے پر ایک اور اجلاس میں بھی پاکستان کو مدعو کیا گیا، جس سے یہ بات ظاہر ہے کہ روس افغانستان کے استحکام کے لیے کام کرنا چاہتا ہے اور اس کا کردار بہت اہم ہے۔‘‘
سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان نے خارجہ امور پر ماضی میں سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھے۔ یعنی وہ مغربی اتحاد کا حصہ بنا اور اس نے دوسرے ممالک سے تعلقات بہتر طریقے سے استعمال نہیں کیے۔ ڈاکٹر طلعت وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سرد جنگ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ اس کو کسی ایک کیمپ کی طرف نہیں جانا چاہیے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ طور پر چلانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ''روس سے تعلقات بہتر کر کے پاکستان واشنگٹن کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس نے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھے۔ پاکستان یہ سگنل بھی دے رہا ہے کہ اگر امریکا اس کو اہمیت نہیں دیتا، تو دنیا میں اور ممالک بھی ہیں۔‘‘
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
فرحت آصف اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ پاکستان سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنا چاہتا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ روس کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے، ''اس حوالے سے واضح پالیسی ہونا چاہیے کیونکہ ہم کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی چین کی طرف۔ کبھی روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی امریکا کی طرف جاتے ہیں۔‘‘
امریکا ناراض نہیں
اسلام آباد میں یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ پاکستان کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ صدر جو بائیڈن نے دنیا کے کئی سربراہان مملکت و حکومت کو فون کیا لیکن پاکستانی وزیر اعظم کو ابھی تک ان کی کوئی کال نہیں آئی۔ اس کے علاوہ امریکا نے پاکستان کو ماحولیاتی کانفرنس میں بھی مدعو نہیں کیا جبکہ جان کیری نے بھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ تاہم بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں یہ باتیں زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے امریکا اس کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا اور ابھی امریکی فوجیں افغانستان میں ہیں۔ ان کی واپسی کے لیے امریکا کو پاکستان کی مدد درکار ہے جبکہ طالبان سے بات چیت کے لیے بھی امریکا پاکستان کا محتاج ہے۔ تو میرے خیال میں امریکا کو پاکستان کی ضرورت رہے گی۔ یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی اسے خطے میں پاکستان کی ضرورت رہے گی۔ امریکا پاکستان کو تنہا کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔‘‘
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔