خطے کے دو بڑے حریف، ترکی اور اسرائیل باہمی قربت کے لیے کوشاں
8 مارچ 2022
ترکی اور اسرائیل دو علاقائی حریف ہیں، جو اب باہمی قربت کی کوشش میں ہیں۔ صدر ایردوآن کی دعوت پر اسرائیلی صدر ہرزوگ نو مارچ سے ترکی کا سرکاری دورہ کریں گے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں ترک اسرائیلی تعلقات میں زیر و بم پر ایک نظر۔
اشتہار
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کی دعوت پر بدھ نو مارچ سے ترکی کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں، جس دوران دونوں علاقائی حریف ریاستیں مابین ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک نئی ابتدا کی کوشش کریں گی۔ دونوں ممالک کے باہمی روابط ماضی میں کئی مرتبہ شدید کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور صدر ہرزوگ کا یہ دورہ 2008ء سے لے کر آج تک اسرائیل کے کسی بھی اعلیٰ ترین رہنما کا ترکی کا اولین دورہ ہو گا۔
اشتہار
ترک اسرائیلی تعلقات میں گزشتہ بارہ برسوں کے دوران کیا کچھ ہوا؟
۔ مئی 2010ء: حماس کے زیرانتظام غزہ کے فلسطینی علاقے کی اسرائیل کی طرف سے بحری ناکہ بندی کے دوران غزہ کے لیے امداد لے کر جانے والے ایک ترک بحری امدادی قافلے پر بحیرہ مارمرہ میں اسرائیلی کمانڈوز کے ایک حملے میں نو ترک امدادی کارکن مارے گئے تھے۔ دسواں زخمی کارکن تقریباﹰ چار سال تک مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد 2014ء میں انتقال کر گیا تھا۔ یہ واقعہ ترکی اور اسرائیل کے مابین شدید نوعیت کی طویل کشیدگی کی وجہ بنا تھا۔
۔ ستمبر 2011ء: ترک حکومت نے انقرہ میں اسرائیلی سفارتی موجودگی کی سطح کم کر کے صرف سیکنڈ سیکرٹری لیول تک کر دی تھی۔ ایسا اقوام متحدہ کی طرف سے مئی 2010ء کے ہلاکت خیز سمندری واقعے سے متعلق ایک رپورٹ کے اجراء کے بعد کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مطلب یہ تھا کہ ترکی نے عملاﹰ اپنے ہاں سے تمام بڑے اسرائیلی سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا تھا۔
۔ مارچ 2013ء: امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے کی گئی کوششوں کے بعد ایک فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے رجب طیب ایردوآن سے گفتگو میں باقاعدہ معافی مانگی اور ان ترک ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا، جو بحیرہ مارمرہ میں ترک بحری امدادی قافلے کے خلاف اسرائیلی کمانڈو آپریشن میں ہوئی تھیں۔
۔ دسمبر 2015ء: اسرائیل اور ترکی کے باہمی تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لیے ایک ابتدائی معاہدہ طے پا گیا اور دونوں ممالک کے سفیر بھی ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں لوٹ گئے۔
۔ جون 2016ء: اسرائیل اور ترکی کے مابین چھ سالہ کشیدگی کے بعد دوطرفہ روابط کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے 'ایک بڑا اشارہ‘ قرار دیا تھا۔
۔ نومبر 2016ء: دونوں حریف ممالک کے مابین روابط میں مزید بہتری آئی اور صدر ایردوآن نےاسرائیل میں نیا ترک سفیر نامزد کر دیا، جس کے بعد اسرائیل نے بھی انقرہ میں اپنا نیا سفیر بھیج دیا۔
۔ جون 2017ء: ترک وزیر خزانہ نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے بحیرہ مارمرہ میں پیش آنے والے واقعے میں ترک ہلاک شدگان کے خاندانوں کو مجموعی طور پر 20 ملین ڈالر کی رقم بطور تلافی ادا کر دی ہے۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
22 تصاویر1 | 22
۔ مئی 2018ء: دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔ وجہ غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں جاری مظاہروں کے دوران اسرائیلی دستوں کی کارروائیوں میں 60 فلسطینیوں کی ہلاکت بنی۔ یہ فلسطینی اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت کو ترک صدر ایردوآن نے نسل کشی اور اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا۔
دسمبر 2019ء: اسرائیل نے چند ماہ قبل ترکی اور لیبیا کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی مخالفت کی، جس میں مشرقی بحیرہ روم میں سمندری حدود کا تعین کیا گیا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد اسرائیل، یونان اور قبرص نے بھی ایک معاہدے پر دستخط کر دیے، جو قدرتی گیس کی یورپ کو ترسیل کے لیے ایک پائپ لائن سے متعلق تھا۔ ترکی نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی تھی اور بعد میں یہ منصوبہ روک دیا گیا تھا۔
۔ نومبر 2021ء: ترکی نے اس اسرائیلی جوڑے کو رہا کر دیا، جس پر جاسوسی کا الزام تھا اور جسے استنبول میں صدر ایردوآن کی سرکاری رہائش گاہ کی تصویریں بناتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے جاسوسی کے ان الزمات کی تردید کی۔ بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ٹیلی فون پر صدر ایردوآن سے گفتگو کی، جو بینیٹ کے دفتر کے مطابق دونوں ممالک کے حکومتی سربراہان کے مابین 2013ء کے بعد ہونے والی پہلی بات چیت تھی۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
۔ فروری 2022ء: صدر ایردوآن نے کہا کہ ترکی اور اسرائیل مل کر اسرائیلی قدرتی گیس کی یورپ کو ترسیل کے منصوبے پر کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبے میں تعاون پر مارچ میں ہونے والی بات چیت میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
۔ مارچ 2022ء: اسرائیل اور ترکی دونوں کی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے دورہ ترکی کے دوران ایردوآن اور ہرزوگ اپنے مذاکرات میں دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی تعاون میں اضافے پر مشورے کریں گے۔
م م / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی)
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔