1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خط لکھنے کے لیے اختیار دے دیا ہے، وزیر اعظم کا سپریم کورٹ میں بیان

18 ستمبر 2012

پاکستانی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ملکی سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے عدالتی حکم پر این آر او عملدرآمد کے مقدمے میں سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے وزیر قانون کو اختیار دے دیا ہے۔

تصویر: Reuters

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، جو اس مقدمے میں دوسری مرتبہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے، نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر قانون کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھیں کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا این آر او سے متعلق لکھا گیا خط غیر قانونی ہے اور پاکستان اس سے دستبردار ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو لکھنے کے چار مراحل ہیں، جن میں سے پہلے دو مراحل کو یکجا کیا جائے یعنی وزیر اعظم یہ خط لکھنے کا تحریری اختیار دیں اور پھر اس خط کا مسودہ تیار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس کے بعد خط بھجوانے کے لیے کسی کی تقرری کی جائے اور آخری مرحلے میں عدالت کو اس ساری کارروائی سے آگاہ کیا جائے۔ وزیر اعظم نے اس خط کے مسودے کی تیاری کے لیے رواں ماہ کے آخر تک کا وقت مانگا تھا لیکن عدالت نے انہیں 25 ستمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اس مقدمے میں دوسری مرتبہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھےتصویر: Reuters

عدالت کے باہر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کو صحافیوں کے ان تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا کہ آخر خط لکھنا ہی تھا تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی قربانی کیوں دی گئی۔ اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نذر محمد گوندل نے کہا، 

’’سیاست میں لچک ہوتی ہے، جمہوریت نام ہوتا ہے فیصلوں کا، مشاورت اور اجتماعی سوچ کا اور وقت بھی اہم ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس وقت قیادت نے مناسب نہ سمجھا ہو، بلکہ اب مناسب سمجھا ہو، لیکن میں کہوں گا کہ پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت تھی اور ہماری قیادت نے یہ مناسب سمجھا کہ ہم آئندہ انتخابات کی طرف جا رہے ہیں اور ملک و قوم اور ریاست کو اس ہیجان سے نکالا جائے۔‘‘

وزیر اعظم نے اس خط کے مسودے کی تیاری کے لیے رواں ماہ کے آخر تک کا وقت مانگا تھا لیکن عدالت نے انہیں 25 ستمبر تک کی مہلت دیتصویر: AP

منگل کے روز وزیر اعظم پرویز اشرف کے ہمراہ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی عدالت آئے تھے۔ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کے درمیان تصادم کا تاثر غلط ثابت ہو گیا ہے۔ انہوںنے کہا،

’’آج وزیر اعظم نے بڑا اچھا موقف پیش کیا اور عدالت میں بھی جو کارروائی ہوئی، وہ بھی بڑے اچھے اور احسن طریقے سے ہوئی، اور اچھے فیصلے کیے گئے۔‘‘

حکومتی اتحادیوں سے بھی یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر تین سال تک سوئس حکام کو خط لکھنے میں تاخیر کیوں کی گئی۔ اس بارے میں حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا،

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانیتصویر: picture-alliance/dpa

 ’’عدالت نے اپنی گزشتہ سماعت میں فیصلے کی جس طرح تشریح کی اور جب سے راجہ صاحب وزیراعظم بنے ہیں،عدالت کا یہ کہنا ہے کہ یہ خط وزیر اعظم نے نہیں لکھنا۔ یہ خط صدر کے خلاف نہیں ہے۔ یہ خط صرف اتنا ہے کہ وزارت قانون کا کوئی افسر یہ لکھ دے کہ پچھلے اٹارنی جنرل نے جو خط لکھا تھا، اس سے دستبردار ہوتے ہیں جبکہ آپ گیلانی صاحب کے پورے مقدمے کا ریکارڈ دیکھ لیں تو اس میں کہیں بھی یہ بات نہیں ہے۔‘‘

خیال رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان دو ہزار سات میں قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس کے تحت صدر زرداری سمیت تقریبا آٹھ ہزار افراد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بند کر دے گئے تھے۔ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے 2008 میں سوئس حکام کو خط لکھ کر وہاں  صدر زرداری کے خلاف جاری مقدمات بند کرنے کے لیے کہا تھا تاہم سپریم کورٹ نے دسمبر 2009 میں این آر او کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس سے مستفید ہونے والوں کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں