ڈونلڈ ٹرمپ فرد جرم کا سامنا کرنے والے پہلے سابق امریکی صدر بن گئے ہیں۔ ان پر خفیہ دستاویزات کے غلط استعمال کے لیے فرد جرم عائد کی گئی ہے جس سے امریکہ کا دوسری مرتبہ صدر بننے کا ان کا ارادہ مشکل میں پڑ گیا ہے۔
اشتہار
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا، "میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکہ کے سابق صدر کے ساتھ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ان کے وکلاء نے انہیں بتایا ہے کہ عہدہ چھوڑنے کے بعد ان پر خفیہ دستاویزات اپنے پاس رکھنے کے الزام میں فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ' پر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا، "بدعنوان بائیڈن انتظامیہ نے میرے وکلاء کو مطلع کیا ہے کہ مجھ پر فردجرم عائد کردی گئی ہے، بظاہر دستاویزات کے ڈبوں کے متعلق افواہوں کے سلسلے میں۔"
امریکی محکمہ انصاف نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی تبصرہ یا تصدیق نہیں کی ہے۔
ٹرمپ نے لکھا کہ انہیں میامی میں وفاقی عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں خود کو بے گناہ قرار دیا۔
میڈیا کے مطابق سابق صدر پر سات جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں جان بوجھ کر قومی دفاعی راز اپنے پاس رکھنا، جھوٹے بیانات دینا اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش کرنا شامل ہے۔
یہ ان متعدد کیسز میں سے ایک ہے جن کا سابق امریکی صدر کو سامنا ہے۔ حالانکہ وہ کسی غلط کام میں ملوث ہونے کی کئی مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔
سابق صدر پر عائد کی جانے والی فرد جرم ان کے لیے سب سے زیادہ سنگین قانونی خطرہ بن گئی ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر بننے کے ان کے ارادے کو خطرے لاحق ہو گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر مارچ میں پورن فلم اسٹار اسٹورمی ڈینیلئز کو اپنا منہ بند رکھنے کے لیے رقم دینے (ہش منی) کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور اس کیس میں انہیں اب بھی واشنگٹن اور اٹلانٹا میں تحقیقات کا سامنا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ان پر مجرمانہ الزامات بھی لگ سکتے ہیں۔
ہم کیس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
امریکی محکمہ انصاف اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا سابق صدر نے سن 2021 میں وائٹ ہاوس چھوڑنے کے بعد اپنے پاس موجود دستاویزات کا غلط استعمال کیا؟
گزشتہ سال فلوریڈا کے پام بیچ میں ٹرمپ کے ذاتی بنگلے مار اے لاگو اسٹیٹ سے تقریباً 13000 دستاویزات ضبط کی گئی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 100 خفیہ دستاویزات کے طور پر نشان زد تھیں۔
ٹرمپ کے وکلاء نے اس سے قبل کہا تھا کہ تمام خفیہ دستاویزات حکومت کے حوالے کردی گئی ہیں۔
ٹرمپ نے دستاویزات کو اپنے پاس رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ عہدہ صدارت پر تھے تو انہوں نے ان دستاویزات کو 'ڈی کلاسیفائیڈ' کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے اس دعوے کی تائید میں کبھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔