خلاء میں ’سولر فلیئرز‘ کے باعث زمین پر بجلی کا نظام متاثر
محمد علی خان، نیوز ایجنسی اے ایف پی
7 ستمبر 2017
سورج سے بدھ چھ ستمبر کو خارج ہونے والے بہت زیادہ درجہ جرارت والی گیسوں کے دو بہت بڑے بڑے بادل زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں، جن میں سے ایک تو گزشتہ قریب ایک عشرے کے دوران سورج سے خارج ہونے والا ایسا سب سے بڑا بادل تھا۔
اشتہار
ایک طرح سے شمسی طوفان کہلانے والے ایسے بادلوں سے بہت طاقت ور مقناطیسی شعاعیں بھی خارج ہوتی ہیں، جن میں تابکاری کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ خلا میں ایسے شمسی طوفانوں اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی بہت گرم لہروں کے سبب زمین پر خود انسانی زندگی کو تو براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن یہی خلائی عوامل انسانوں کی طرف سے خلاء میں بھیجے گئے مواصلاتی نظاموں کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ساتھ ہی زمین پر چند خاص قسم کی تنصیبات کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق solar flares یا ’شمسی طوفان‘ دراصل سورج کی بالائی سطح پر اس ستارے کے اندر جاری انتہائی طاقت ور طبیعیاتی اور کیمیائی عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی وہ ناقابل تصور حد تک تیز چمک ہوتے ہیں، جن سے اتنی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے، جس کا کوئی عام انسان بالعموم تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ماہرین کے مطابق ایسا ہوا بھی۔ انہی مقناطیسی اور تابکاری اثرات والے گرم گیسی بادلوں نے مواصلاتی سیاروں کے ذریعے کام کرنےو الے اور خلا میں موجود گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس کو بھی متاثر کیا اور ساتھ ہی زمین پر چند ممالک کے مختلف حصوں میں بجلی کی فراہمی کا نظام بھی قریب ایک گھنٹے تک متاثر ہوا۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی ’سولر ڈائنامکس آبزرویٹری‘ یا شمسی عوامل کی مشاہدہ گاہ کے ماہرہن کے بقول یہ دونوں ’سولر فلیئرز‘ اپنی نوعیت میں ’ایکس کلاس‘ کے خلائی بادل تھے، جو اپنی درجہ بندی کے لحاظ سے ان گیسی بادلوں کی طاقت ور ترین کیٹیگری ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق سورج سے اخراج کے باعث انہی بادلوں کو coronal ejection بھی کہا جاتا ہے، اور ان میں سے ایک بادل تو 2006ء کے بعد سے سورج سے خارج ہونے والا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور طاقت ور بادل تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ناسا کے ماہرین شمسی اخراج کے بعد خلاء میں رونما ہونے والے ان عوامل پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ان ’فلیئرز‘ کی چند تصاویر بھی جاری کی ہیں۔
ہمارا سورج: گرم گیسوں کا گولہ
کائنات میں ہمارے سورج جیسے اربوں ستارے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔ سورج کے بارے میں صدیوں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/Irlmeier, K.
آگ کا قدیمی گولہ
زمین پر انسانی وجود سے بھی اربوں برس پہلے سے سورج جگمگا رہا ہے۔ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے ہمراہ 4.6 بلین برسوں قبل سورج گیسوں کے بادلوں کے سبب وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ بلین سالوں تک سورج کا وجود قائم رہے گا جس کے بعد اس کی توانائی ختم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
توانائی پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ کا مرکز
سورج بنیادی طور پر ایک بڑے ایٹمی ری ایکٹر کے مانند ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت اور دباؤ اس قدر شدید ہےکہ ہائیڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔
تصویر: rangizzz/Fotolia.com
زمین سے سو گنا بڑا
زمین سے دیکھتے ہوئے سورج اتنا بڑا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا نصف قطر یا رداس سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مرکز میں درجہ حرارت پندرہ ملین ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ ہے جب کہ سطح پر سورج کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
اربوں میں ایک
خلا میں چمکتے ستاروں کے مرکز میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا سورج بھی کائنات میں موجود ایسے ہی اربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج درمیانے حجم کا ستارہ ہے۔ کائنات میں ان گنت ستارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے بھی ہیں۔
تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images
سطح پر دکھنے والی بے چینی
سورج کے اندر سے نکلنے والا انتہائی روشن اور گرم مادہ سطح پر پہنچنے کے بعد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تاہم درجہ حرارت کم ہوتے ہی واپس مرکز کی جانب مڑ جاتا ہے۔ کائنات میں صرف سورج ہی وہ واحد ستارا ہے جس کا ماہرین اتنی باریک بینی سے تجزیہ کر پائے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Q. Rooney
جادوئی سیاہ دھبے
سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا مشاہدہ قبل از مسیح کے زمانے سے کیا جا چکا ہے۔ گیلیلیو کی تحریروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ وقتوں کے انسانوں کے لیے یہ حیرت انگیز مشاہدے تجسس کا سبب تھے۔ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ انتہائی مضبوط مقناطیسی میدان ان سیاہ دھبوں کا سبب بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
خطرناک طوفان
جب سورج پر سرگرمی بڑھ جائے تو ’جیو میگنیٹک‘ طوفان پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورج سے بڑی مقدار میں ’چارج شدہ‘ ذرات خلا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ذرات خلا میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں اور زمین پر بھی پاور اسٹیشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
تصویر: dapd
جب آسمان دمکتا ہے
ایسے ہی طوفان ایک دلفریب منظر کا سبب بنتے ہیں اور آسمان دمک اٹھتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ چارج شدہ ذرات زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں۔ اس مظہر کو ’پولر روشنی‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: dapd
لیکن یاد رکھیے!
سورج گرہن کو کبھی ننگی آنکھ سے مت دیکھیے۔ سورج اس وقت بھی انتہائی روشن ہوتا ہے جب چاند اس کے سامنے آ چکا ہو۔ خاص طرح کی عینک پہنے بغیر سورج گرہن دیکھنے سے بینائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nietfeld
9 تصاویر1 | 9
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان شمسی طوفانوں کے نتیجے میں زمین کی بیرونی سطح اور اس کے مدار کو انتہائی زیادہ توانائی والے خلائی ذرات اور مقناطیسی شعاؤں کا سامنا بھی ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ان ’فلیئرز‘ نے سورج کی سطح سے اخراج کے بعد جب خلاء میں اپنا سفر شروع کیا، تو ان سے خارج ہونے والی مجموعی توانائی کئی لاکھ ہائیڈروجن بموں سے بیک وقت خارج ہونے والی کُل توانائی سے بھی زیادہ تھی۔
ایسے شمسی خلائی عوامل کس کس طرح زمین پر انسانی وجود کو بالواسطہ طور پر متاثر کر سکتے ہیں، اس کی دو مثالیں یہ بھی ہیں کہ 2003ء میں کرہِ ارض کی فضا سے ٹکرانے والے آج تک کے طاقت ور ترین شمسی طوفان کے باعث پیدا ہونے والی مقناطیسی شعاؤں سے خلاء میں نہ صرف جاپان کا ایک مصنوعی سیارہ تباہ ہو گیا تھا بلکہ 1972ء میں انہی ’فلیئرز‘ سے امریکی ریاست اِلینوئے میں ٹیلی فون لائنوں تک کی کارکردگی متاثر ہوئی تھی۔
پلوٹو کی انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی تصویریں
ناسا کا تحقیقاتی مشن ’نیو ہورائزن‘ نو برس تک سفر کرتا رہا اور پھر کہیں جا کر نظام شمسی کے آخری سرے پر پلوٹو تک پہنچا۔ اس بونے سیارے کی انتہائی عمدہ تصاویر اب جاری کر دی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL/SwRI
اتنی اچھی تصاویر جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئیں
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ان تصاویر میں پلوٹو کی سطح کو انتہائی قربت سے دیکھا گیا ہے۔ پہاڑی اور برفیلے علاقوں سے مزین اس چھوٹا سے سیارے کی تصاویر پلوٹو کی ایک غیرمعمولی شکل دکھا رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/NASA/JHUAPL/SwRI
انتہائی اچھی تصویریں
نیو ہورائزن پلوٹو کے قریب سے گزرا، تو اس پر نصب دوربین ’لوری‘ نے ہر تین سیکنڈ کے وقفے سے اس بونے سیارے کی تصاویر کھینچیں۔ اس دوربین کے کیمرے کی شٹر اسپیڈ کا پورا فائدہ اٹھایا گیا، اور پلوٹو کی سطح کا باریکی سے مطالعہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Jhuapl/Swri
ایک بڑا فرق
اس تصویر میں پلوٹو کا موسم گرما کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کی نگاہ سے پلوٹو کی یہ تصاویر اس بونے سیارے کی اب تک کی تمام تصاویر سے بہت بہتر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL
دسترس میں
پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک وقت ايسا بھی تھا، جب یہ خلائی جہاز اس بونے سیارے سے صرف 350 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اس تصویر میں پلوٹو کا سب سے بڑا چاند چارون بھی دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
ایک سیارہ جو اب سیارہ نہیں
سن 2006ء میں نیو ہورائزن کی روانگی کے چھ ماہ بعد بین الاقوامی فلکیاتی یونین (IAU) نے پلوٹو کی بابت ایک اہم فیصلہ کیا۔ اس کا مدار سیاروں کی طرح گول نہیں، اس لیے اسے سیاروں کی کیٹیگری سے نکال کر ’بونے سیاروں‘ کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا۔ پلوٹو جس جگہ پر ہے، وہاں اس طرح کے کئی آبجیکٹس دیکھے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Saurer
حجم کا تقابل
اس تصویر میں سورج، عطارہ، زہرہ، زمین اور مریخ دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کے بعد نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون ہیں۔ ان کے آگے یہ چھوٹا سا نکتہ پلوٹو ہے، جس کی قطر صرف دو ہزار تین سو ستر کلومیٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پلوٹو کے تمام چاند گول نہیں
نیوہورائزن نے اس بونے سیارے کے چاندوں کو بھی دیکھا۔ اس کے تمام چاند گول نہیں۔ ڈیٹا کے مطابق پلوٹو کا ایک چاند سٹیکس آٹھ سے اٹھائیس کلومیٹر قطر کا ہے۔ اس خلائی جہاز سے چارون، نِکس اور ہائیڈرا کی تصاویر بھی حاصل ہوئیں۔
تصویر: NASA/ESA/A. Feild (STScI)
چاند کا چاند بھی
پلوٹو کے ایک چاند نِکس کے بارے میں اس تحقیقاتی مشن سے قبل زیادہ معلومات دستیاب نہ تھیں۔ نیو ہورائزن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ چاند پلوٹو کے گرد گول مدار میں گردش نہیں کرتا، بلکہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاند چارون کی تجاذبی کشش کی وجہ سے ایک انوکھا سا مدار بناتا ہے، یعنی نِکس پلوٹو کے چاند کا چاند بھی ہے۔
نیوہورائزن پر تین آپٹیکل آلات تھے، جن کا کام پلوٹو کے مختلف مقامات کی تصاویر ریکارڈ کرنا تھا، جب کہ دو پلازما اسپیٹرو میٹر تھے، جو اس بونے سیارے پر سولر وِنڈز (شمسی شعاعیں) کے ذرات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ گرد اور ریڈیو میٹر بھی نصب تھے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
آپٹیکل دوربین
ٹیکنیشنز نے طویل فاصلے سے تصاویر ’لوری‘ نامی دوربین نصب کی تھی۔ اسی سے ہمیں پلوٹو کی انتہائی عمدہ تصاویر حاصل ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے سے سیارے پر موجود تابکاری کو طول موج سے ماپا گیا۔ اس خلائی جہاز پر ساڑھے آٹھ کلوگرام سے زائد وزن کا یہ اعلیٰ دیگر آلات کے مقابلے میں بھاری ترین تھا۔
تصویر: NASA
2006 سے سفر
نیو ہورائزن نے 19 جنوری 2006 کو پلوٹو کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ کیپ کانیورل سے اٹلس فائیو راکٹ کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے اس خلائی جہاز نے زمین اور سورج کے تجاذب سے نکلنے کے لیے 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کیا۔ کسی خلائی جہاز کی اب تک کی یہ تیز ترین رفتار تھی۔
تصویر: NASA
سورج سے دور بہت دور
اس خلائی جہاز کی منزل نظام شمسی کا آخری سرا تھا۔ اس کے راستے میں مشتری اور ایک دم دار ستارہ آيا اور نو سال، پانچ ماہ اور 24 دن تک مجموعی طور پر 2.3 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اس بونے سیارے تک پہنچا۔