خلائی سیاحت: سالانہ حجم دس کھرب ڈالر، جرمنی بھی دوڑ میں شامل
28 اپریل 2019
دنیا کےکئی ممالک آئندہ برسوں میں خلا کی سیاحت کے شعبے میں اپنے لیے سبقت کی کوششوں میں ہیں۔ ماہرین کے مطابق آج سے بیس پچیس برس بعد اس بین الاقوامی کاروباری شعبے کی سالانہ مالیت کا حجم تقریباﹰ دس کھرب ڈالر ہو جائے گا۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار اٹھائیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق خلائی سیاحت، مثلاﹰ زمین سے چاند تک کا سیاحتی سفر، مستقبل کے حوالے سے اپنے اندر اتنے زبردست کاروباری اور مالیاتی امکانات لیے ہوئے ہے کہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک اس پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں امریکا، روس اور چین تو شامل ہیں ہی، لیکن ساتھ ہی چند ایسے چھوٹے ممالک بھی اس سلسلے میں اپنے لیے بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں جو اپنے ہاں تیزی سے قانون سازی کر رہے ہیں، مثلاﹰ لکسمبرگ۔
جرمنی میں قانون سازی کی تیاریاں
جرمنی بھی، جو اپنی آبادی، معیشت اور سائنسی ترقی کے حوالے سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، اس شعبے میں آئندہ برسوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ جرمنی میں تو اب ایک ایسے نئے قانون کے مسودے کو حتمی شکل دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، جس کے تحت خلائی سفر کے میدان میں نجی شعبے کی طرف سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جا سکے گی۔
سائنسی سطح پر ماہرین آج کل اس بحث میں مصروف ہیں کہ مستقبل میں عام انسان خلا کی سیاحت بھی کر سکیں گے لیکن ساتھ ہی اس امکان کا کھوج بھی لگایا جائے گا کہ آیا زمین پر بسنے والے انسان خلا میں یا چاند اور دیگر سیاروں پر پائے جانے والے مادی وسائل کو بھی اپنے استعمال میں لا سکیں گے۔ اس شعبے میں کئی یورپی، ایشیائی اور امریکی ادارے سرگرم ہیں۔ لیکن جرمنی کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ خلا کی سیاحت کے شعبے سے جرمنی کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر بھی بہت فائدہ پہنچے گا۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
جرمنی کے لیے امید افزا امکانات
جن جرمن اداروں کے لیے مستقبل اپنے اندر امید افزا امکانات لیے ہوئے ہے، ان میں یورپی طیارہ ساز کنسورشیم ایئربس بھی شامل ہے، جس کا جرمنی ایک اہم رکن ملک ہے۔
اس کے علاوہ ایئربس آریانے طرز کے خلائی راکٹ تیار کرنے والے ادارے کی ایک شریک مالک کمپنی بھی ہے اور اسی صنعت سے وابستہ او ایچ بی نامی ادارہ بھی جرمن شہر بریمن ہی کی ایک کمپنی ہے۔
جرمنی میں جو نئی قانون سازی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا مقصد خلا میں کسی ممکنہ حادثے کی صورت میں نجی کمپنیوں پر عائد ہونے والی مالیاتی اور قانونی ذمے داریوں کو محدود بنانا ہے تاکہ خلائی سیاحت کے شعبے میں نجی اداروں کی طرف سے سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون اسی سال وفاقی جرمن پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔
جرمنی اور فرانس کی سربراہی میں کام کرنے والے ایئربس کنسورشیم کے دفاع اور خلائی سفر سے متعلقہ شعبے کے سربراہ ڈِرک ہوکے نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم اس بارے میں اب خطرے کی گھنٹی بجانے لگے ہیں کہ خلائی سفر اور سیاحت کے حوالے سے چین اور امریکا کے مقابلے میں جرمنی اور یورپ کے قدرے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا برلن اور برسلز دونوں کو اس شعبے میں اپنی تیز رفتاری کو یقینی بنانا ہو گا۔‘‘
خلائی شعبے کے لیے جرمن بجٹ
ماہرین کے مطابق جرمنی کو اس میدان میں اب زیادہ عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اس لیے بھی کہ مثال کے طور پر جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت تو ہے اور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی، لیکن 2018ء کے سالانہ بجٹ کو دیکھا جائے تو برلن حکومت کا خلائی شعبے کے لیے مختص کیا گیا بجٹ قومی بنیادوں پر دنیا کا صرف ساتواں سب سے بڑا بجٹ تھا۔ گزشتہ برس اس شعبے میں جرمن بجٹ کی مالیت 1.1 ارب امریکی ڈالر کے برابر رہی تھی۔
اس کے برعکس خلائی شعبے میں دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ رقوم امریکا خرچ کرتا ہے، جن کی مالیت تقریباﹰ 40 ارب ڈالر ہوتی ہے۔ ڈِرک ہوکے کے بقول امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند تک کے سفر سے متعلق اپنا جو ’گیٹ وے‘ نامی پروگرام تشکیل دیا ہے، وہ مستقبل میں خلائی سیاحت کی منڈی میں جرمنی اور یورپ کے لیے مجموعی طور پر ایک سنہری موقع ثابت ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے یورپ بھی اس مارکیٹ میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔
م م / ع س / روئٹرز
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔