1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی مخلوق اور اڑن طشتریاں جرمنی میں؟

4 جولائی 2021

اڑن طشتریاں امریکی فضائی حدود میں؟ اگر وہاں ہوسکتی ہیں تو یہ جرمنی سمیت کہیں بھی ہو سکتی ہیں۔

نیوزی لینڈ کی فضائی حدود میں ایک اڑن طشتری
تصویر: Mary Evans Picture Library/picture-alliance

امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اڑن طشتریوں کے بارے میں رپورٹ پر جرمنی میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کئی متجسس افراد کا خیال ہے کہ جرمنی میں بھی ناشناختہ فضائی طشتریاں یا یو ایف اوز دیکھی گئی ہیں۔

(Unidentified Flying Objects (UFOs یا فضا میں پرواز کرنے والی ناشناختہ اشیاء پر تحقیق کرنے والے محقق رابرٹ فلائشر نے، جو مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں رہتے ہیں، ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''ہم  ایک لامحدود کائنات کے وسط میں ایک چھوٹے سے نیلے سیارے پر رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر تو کچھ بھی ممکن ہے۔‘‘

کیا یہ کسی خلائی مخلوق کا جہاز ہے؟

00:54

This browser does not support the video element.

فلائشر Exopolitik Deutschland نامی ایک گروپ چلا رہے ہیں، جس کے یوٹیوب چینل کا نام  Exopolitik TV ہے اور جس کے ایک لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔ گرچہ ایک حالیہ غیر سرکاری امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں نا تو اس امر کی تصدیق اور نا ہی تردید کی گئی ہے کہ زمین اور اس کی فضا سے باہر ناشناختہ اڑن طشتریوں کا کوئی سلسلہ فضا میں موجود ہے۔ فلائشر اس امر کے قائل ہیں کہ ہر چیز سے قطع نظر یہ ایک انوکھی شے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ہم دیکھیں گےکہ یہ طیارے حیرت انگیز خصوصیات کے ساتھ فضا میں ادھر ادھر اڑتے پھریں گے۔ ہم ان کی کوئی وضاحت نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے تصور سے بالاتر ہیں۔‘‘

رابرٹ فلائشر یو ایف اوز کے بارے میں معلومات کے تناظر میں جرمنی کو 'لاعلمی یا حماقت کی وادی‘ سمجھتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کہیں زیادہ وسائل بروئے کار لا کر عجیب و غریب اور ناقابل وضاحت واقعات کی تحقیق اور ان کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ فلائشر کے بقول، ''جرمنی میں یہ موضوع اس وقت اہمیت کا حامل بنا، جب سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اس بارے میں بات کی۔‘‘

خلائی مخلوق کی تلاش، ایک سو ملین ڈالر کا عطیہ

Exopolitik Deutschland نامی ایک گروپ کے یوٹیوب چینل کا نام Exopolitik TV ہے۔تصویر: ufo-forschung.de

فلائشر کا یہ بیان دراصل سابق امریکی صدر اوباما کے اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو سے متعلق ہے، جس میں اوباما نے حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، ''آسمان پر موجود چیزوں کی ایسے فوٹیجز اور ریکارڈز جن کا ہمیں قطعاً اندازہ نہیں کہ یہ ہیں کیا، ہم ان کے بارے میں کوئی وضاحتی بیان نہیں دے سکتے کہ وہ کیسے حرکت کرتی ہیں۔ ان کی کوئی مخصوص ترتیب نہیں، جس کے بارے میں آسانی سے سمجھایا جا سکے۔‘‘

سیٹلائٹس اور ہاٹ لائنز

علم فلکیات میں شوقیہ دلچسپی رکھنے والے جرمن ماہر ہانس ژُورگن کؤہلر شہر فرینکفرٹ کے نواح میں عشروں سے 'سینٹرل ریسرچ نیٹ ورک فار ایکسٹرا اورڈینیری ایروسپیس فینومینا‘ سی ای این اے پی‘ چلاتے رہے ہیں۔ یہ ماہر فلکیات ماضی میں جن باتوں پر یقین رکھتے تھے، اب انہیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ہماری ہاٹ لائن کو ہر سال سینکڑوں اشارے ملتے ہیں۔ بیشتر کی وجوہات فطری ہوتی ہیں۔ ہم ان میں سے 97 فیصد تک کی وضاحت کر سکتے ہیں جبکہ باقی تین فیصد ہنوز وضاحت طلب ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان سے متعلق کافی ڈیٹا یا اعداد و شمار ہی موجود نہیں ہیں۔‘‘

خلائی مخلوق سے رابطے کا پروگرام معطل

 

کؤہلر کے مطابق اسٹار لنک سیٹلائٹ نیٹ ورک کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔ اس سیٹلائٹ سسٹم کے کرتا دھرتا ایلون مسک ہیں۔ کؤہلر کے بقول 2019ء میں موصول ہونے والی 900 رپورٹوں میں سے 600  اسٹار لنک سیٹلائٹ نیٹ ورک کے ذریعے موصول ہوئیں۔

سینٹرل ریسرچ نیٹ ورک فار ایکسٹرا اورڈینیری ایروسپیس فینومینا‘ سی ای این اے پی‘ کی اسکرین شارٹ۔تصویر: hjkc.de

جرمنی میں یو ایف او ریسرچ

جرمنی میں مختلف مشاغل کے حامل افراد کی نمائندہ تنظیموں اور غیر منافع بخش انجمنوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ یو ایف او ریسرچ سے متعلق ایسوسی ایشن GEP بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کا ڈیٹا بینک ایک لاکھ چالیس ہزار اندراجات پر مشتمل ہے، جن میں سے 95 فیصد قابل وضاحت ہیں۔ جرمنی کے UFO کلبوں کے اراکین میں سے بہت سے اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ ان میں ایسے قابل پیشہ ور ماہرین بھی موجود ہیں، جو محدود وسائل استعمال کرتے ہوئے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ آسمان سے ملنے والے اسگنلز کیا کہہ رہے ہیں۔

خلائی مخلوق کا بلاوا؟

Exopolitik Deutschland کے رابرٹ فلائشر کے بقول، ''حقیقی معنوں میں اہم واقعات کی اطلاعات میں فوج کو بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ فضائی نگرانی کرنے والی اکثر مسلح افواج کے پاس جدید ترین آلات اور ریڈار سسٹم ہوتے ہیں۔‘‘

ماتھیاس فان ہائن (ک م / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں