خلائی مخلوق نے رابطہ کیا تو؟ ’جرمنی کی کوئی تیاری نہیں‘
18 اگست 2018
خلا سے اگر کبھی کسی مخلوق نے زمین سے رابطہ کیا تو ایسی صورت حال کے لیے نہ تو جرمنی کا کوئی قبل از وقت منصوبہ موجود ہے اور نہ ہی کسی ممکنہ ردعمل کی کوئی تیاری۔ لیکن زمین پر آباد انسان ایسی کسی مخلوق سے مل کر خوش ہوں گے۔
اشتہار
جرمنی کے کثیر الاشاعت اخبار ’بِلڈ‘ کے مطابق آج کے ترقی یافتہ سائنسی دور میں جب انسان کو خلا اور چاند کو تسخیر کیے ہوئے بھی عشروں ہو چکے ہیں، ابھی تک کم از کم جرمنی میں ایسا کوئی قبل از وقت منصوبہ یا لائحہ عمل موجود نہیں کہ اگر خلاء سے کسی زندہ مخلوق نے زمین پر انسانوں سے رابطہ کیا، تو اس پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔
روزنامہ ’بِلڈ‘ کے مطابق یہ جواب وفاقی جرمن پارلیمان میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن ڈیٹر یانیسیک کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال پر وفاقی جرمن وزارت اقتصادیات کی طرف سے دیا گیا۔
برلن میں اس وفاقی وزارت کی طرف سے بنڈس ٹاگ کے رکن یانیسیک کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا گیا، ’’ایسا کوئی منصوبہ اب تک اس لیے تیار نہیں کیا گیا کہ جرمن حکومت کی رائے میں آج تک کے جملہ سائنسی علوم کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ خلا سے یا کسی دوسرے سیارے پر پائی جانے والی کوئی زندہ مخلوق کبھی زمین پر انسانوں سے رابطہ کرے گی۔‘‘
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JPL-Caltech/MSSS
6 تصاویر1 | 6
وفاقی وزارت اقتصادیات نے اپنے تحریری جواب میں مزید کہا، ’’جرمن حکومت کو اس بارے میں دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ان ممکنہ اندازوں یا توقعات کا بھی کوئی علم نہیں، جن کی بنیاد اور ’ٹھوس وجوہات‘ کی بناء پر مختلف ممالک آپس میں اس سلسلے میں دوطرفہ یا کثیر الفریقی مذاکرات کرتے۔‘‘
’امریکی منصوبہ موجود‘
جرمنی کے برعکس امریکا نے ایسا ایک باقاعدہ منصوبہ بنا رکھا ہے کہ اگر کبھی کسی خلائی مخلوق نے زمین سے رابطہ کیا، توکیا کیا جانا چاہیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ واشنگٹن مستقبل قریب میں اپنی ایک خلائی فوج بھی تشکیل دے گا، جو ملکی فوج کا چھٹا شعبہ اور ’یو ایس اسپیس فورس‘ کہلائے گی۔
اس امریکی فوج کی ذمے داری یہ ہو گی کہ وہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک کی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اس بات کے لیے تیار رہے کہ اگر خلا سے کسی بھی شکل میں حریف قوتوں کا سامنا کرنا پڑ گیا، تو اس ممکنہ جدوجہد میں کامیابی کیسے حاصل کی جائے گی۔
امریکی آرمڈ فورسز کا 527 واں خلائی اسکواڈرن نہ صرف پہلے ہی امریکی فضائیہ کا باقاعدہ حصہ ہے بلکہ اس کی طرف سے تواتر سے ایسی مشقیں بھی کی جاتی ہیں کہ کسی ممکنہ خلائی حملے سے کیسے نمٹا جانا چاہیے۔
لوئیزا رائٹ / م م / ع ت
خلا نورد کی نگاہوں سے زمین کا نظارہ
بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے تجرباتی طور پر ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت جرمن خلا نورد الیگزینڈر گریسٹ نے خلا سے زمین کی چند حیرت انگیز تصاویر عکس بند کی ہیں جس کا مقصد زمین کے حسن کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔
الیگزینڈر گریسٹ کے اس منصوبے کا نام’ بلو ڈاٹ‘ یا نیلا نقطہ ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ خلا سے صرف ایک نیلے نقطے جیسی نظر آنے والی زمین کس قدر حسین ہے۔
تصویر: Alexander Gerst/ESA/picture-alliance/dpa
حیرت انگیز مظہر قدرت
الیگزینڈر گریسٹ کہتے ہیں کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے کہ جب شمالی قطبی روشنی نظر آتی ہے تو کیا احساسات ہوتے ہیں۔ شاید الیگزینڈر اس احساس کو تو نہ سمجھا پائیں لیکن ان تصاویر کے ذریعے برقی مقناطیسیت کے زمین کے برقی آلات پر اثرات کو سمجھنے میں آسانی ضرور ہو گی۔
شمال قطبی علاقے میں نظر آنے والی یہ قطبی روشنیاں زمین پر بھی بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں تاہم گریسٹ خلا سے یہ تصاویر عکس بند کرنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: ESA/NASA
جیو چیلنج
یہ تصویر نہ ہی کسی پہاڑ کی ہے اور نہ ہی کسی آتش فشاں کی۔ اصل میں یہ تصویر ایریزونا کے ایک آتش فشاں کی ہے۔ اس تصویر کو اکثر گریسٹ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جیو چیلنج کے ہیش ٹگ کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بوجھیں کہ یہ تصویر اصل میں کس جگہ کی ہے۔
تصویر میں ایک چھوٹے سے چھید کی طرح نظر آنے والا منظر دراصل 80 کلومیٹر چوڑائی پر پھیلا ہوا ہے۔ دلچسپ شکل رکھنے والا یہ طوفان زمین پر کافی زیادہ تباہی پھیلا سکتا ہے۔
خوبصورت مناظر کی تصاویر عکسبند کرنے والے گریسٹ نے اس کو اب تک کی اپنی سب سے غمزدہ کرنے والی تصویر قرار دیا ہے۔ اپنی ایک ٹوئیٹ میں وہ بتاتے ہیں کہ یہ دراصل غزہ اور اسرائیل کی تصویر ہے جس میں راکٹ فائر اوردھماکے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA/NASA
دلچسپ دائرے
تصویر میں نظر آنے والے دائرے کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ نہیں بلکہ زرعی کھیت ہیں جو میکسیکو کے انتہائی خشک خطے میں بنائے گئے ہیں۔
تصویر: ESA/NASA
آرٹ کا شاہکار
یہ تصویر جو کسی ماہر مصور کا شاہکار لگ رہی ہے، حقیقت میں قزاقستان کے ایک دریا کا خلا سے نظر آنے والا منظر ہے۔ اس میں دریا کے معدوم ہوتے ہوئے کنارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہ دریا کسی بھی وقت اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔