امریکی نجی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کا راکٹ بنگلہ دیشی سیٹیلائیٹ لے کر خلا کے لیے روانہ ہو رہا تھا، مگر تکنیکی وجوہ کی بنا پر آخری لمحوں میں اس کی روانگی موخر کر دی گئی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسپیس ایکس کے فیلکون نائن نامی راکٹ کی پہلی کمرشل پرواز جمعرات کے روز تکنیکی مسائل کی وجہ سے کم از کم چوبیس گھنٹوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ یہ لانچ مشن بعد میں انسان بھی خلا تک پہنچایا کرے گا۔
بتایا گیا ہے کہ اس راکٹ کی روانگی کے لیے الٹی گنتی جاری تھی، تاہم راکٹ کے اندر موجود کمپیوٹروں نے روانگی سے صرف ایک منٹ قبل گنتی روک دی۔ فیلکون نائن کا یہ بلاک فائیو مشن کینیڈی اسپیس سینٹر فلوریڈا سے روانہ ہونا تھا۔ اس راکٹ میں بنگلہ دیش کی کمیونیکشن سیٹلائیٹ کے آلات لدے ہوئے تھے۔
اس روانگی کے التوا کے بعد اسپیس ایکس کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اب اسے جمعے کے روز روانہ کیا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر اس راکٹ کو عالمی وقت کے مطابق شام آٹھ بج کر چودہ منٹ تا دس بج کر اکیس منٹ کے درمیان کسی وقت روانہ کیا جا سکتا ہے۔
فی الحال روانگی میں اس تاخیر کی وجوہات سامنے نہیں آئی ہیں۔ لانچ کمانڈرز اب اس راکٹ میں نصب کمپیوٹروں سے ڈیٹا حاصل کر کے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اچانک کیوں رک گئے تھے۔
تیز سے تیز تر اور تیز ترین ٹرینیں
امریکا میں سائنسدان ایک ایسی ٹرین بنانے کی کوششوں میں ہیں، جو ہوائی جہاز سے بھی تیز رفتار ہوگی۔ یہ منصوبہ اسپیس ایکس کے سربراہ ایلن مسک کا ہے لیکن کیا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے؟
تصویر: Hyperloop Technologies
ہوائی جہاز سے بھی تیز
’ہائپر لوپ‘ ٹرین کی رفتار 12 سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زائد ہوگی۔’ہائپر لوپ‘ ٹرانسپورٹ سسٹم کا منصوبہ ایلون مسک کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔ ایلون مسک الیکٹرک کار ساز ادارے ٹیسلا موٹرز اور نجی خلائی ریسرچ فرم ’اسپیس ایکس‘ کے سربراہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/SpaceX via AP/P. Larson
جزوی خلاء اور کم مزاحمت
ہائپر لوپ سسٹم کی خاص بات یہ ہے کہ منصوبے کے تحت کم دباؤ والی ایک ایسی ٹیوب بنائی جائے گی جس میں کیپسولز نما ڈبوں کے ذریعے سفر کیا جائے گا۔ اس ٹیوب میں مکمل خلاء پیدا کرنا نا ممکن ہوگا لیکن ہوا کی مزاحمت انتہائی کم ہوگی۔
تصویر: Hyperloop Technologies
زیر زمین سرنگ
زیر زمین یا پھر زیر سمندر بھی سرنگ بنائی جا سکتی ہے۔ اب یہ منصوبہ کاغذوں سے نکل کر تجرباتی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ رواں برس ہائپر لوپ ٹیکنالوجیز کمپنی نے نیواڈا میں لاس ویگاس کے قریب تجربات شروع کیے ہیں لیکن یہ محدود پیمانے پر ۔
تصویر: Hyperloop Technologies
ہوا میں تیرتی ہوئی
اس مقصد کے لیے مسافروں کے لیے سُپرسونک رفتار کی حامل پریشر ٹیوبز بنائی جائیں گی۔ پریشر ٹیوبز یا پریشر ریل ڈبے روایتی ریل کے ڈبوں کے برعکس انتہائی ہلکے ہوں گے۔ یہ ڈبے ہوا پر تیرتے ہوئے سفر کریں گے اور یہ ہوا اسی ٹرین کی تیز رفتاری سے پیدا ہوگی۔
تصویر: picture-alliance/SpaceX via AP/P. Larson
ایک ٹرین سوئٹزرلینڈ کے لیے
ویکیوم ٹیوب سرنگ کا آئیڈیا نیا نہیں ہے۔ سوئس انجنیئرز بھی ’سوئس میٹرو‘ منصوبے کے تحت تمام بڑے شہروں کو ملانا چاہتے ہیں۔ لیکن سوئس سائنسدان ہوا پر نہیں ٹرینوں کو برقناطیسی لہروں پر چلانا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Swissmetro
ہوائی جہاز کی طرح
ہائپر لوپ میں مسافروں کو یوں محسوس ہوگا، جیسے وہ ہوائی جہاز میں بیٹھے ہوں۔ سفر بہت آرام دہ ہوگا۔ یوں محسوس ہوگا جیسے آپ ہوا پر سوار ہوں۔ یہ تجربہ اب جاپانی آزمائشی مسافر بھی کر سکتے ہیں۔ وہاں پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرینوں کے تجربات جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دنیا کی تیز ترین ٹرین
جاپان کی میگلیو ٹرین نامی یہ ریل گاڑی چھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میگلیو کا مطلب ’مقناطیسی پرواز‘ ہے۔ مقناطیسی طاقت کی وجہ سے ٹرین اپنے ٹریک پر تیرتے ہوئے آگے کی طرف سفر کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Yomiuri Shimbun
ٹرانس ریپیڈ شنگھائی
دنیا کی دوسری تیز ترین آپریٹنگ ٹرین چین کی ’ٹرانس ریپیڈ شنگھائی‘ نامی ٹرین ہے۔ اس ریل گاڑی تیاری میں بھی وہی مقناطیسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، جواب جاپان نے میگلیو کے لیے کی ہے۔ یہ ٹرین مسافروں کو شنگھائی ایئر پورٹ تک لے کر آتی ہے۔ تیس کلومیٹر کا فاصلہ صرف آٹھ منٹ میں طے کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرانسیسی ریسر
فلیش بیک: اس ٹرین نے سن 1998ء میں تیز رفتار ریل گاڑیوں کی دنیا میں انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ فرانسیسی ٹرین ٹی جی وی تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی وہ پہلی ریل گاڑی تھی، جس کی رفتار 250 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اسی ٹرین کے جدید ماڈل نے سن 2007ء میں 574 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا تاہم اب اسے 320 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلایا جاتا۔
تصویر: AP
انٹر سٹی ایکسپریس
جرمنی میں تیز رفتار ٹرین کا نام آئی سی ای یعنی انٹرسٹی ایکسپریس ہے۔ یہ ٹرین ماضی میں 406 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ مخصوص سرخ پٹی والی یہ ٹرینیں سن 1991ء سے ٹریک پر ہیں۔ ان ٹرینوں کے موجودہ ماڈل ICE 3 کی اوسطاﹰ رفتار 280 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ایسی ٹرینیں اسپین، روس، چین، برطانیہ اور ترکی میں بھی چلتی ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
تیز رفتار ٹرین کا طویل ترین ٹریک
دنیا کی چوتھی تیز ترین ٹرین بھی 340 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چین ہی میں بیجنگ سے شنگھائی تک چلتی ہے۔ اس کے علاوہ تیز رفتار ٹرین کا طویل ترین ٹریک بھی چین ہی میں ہے۔ یہ ٹرین مسافروں کو شہر گوانگ ژو سے محض آٹھ گھنٹوں میں دارالحکومت بیجنگ تک پہنچاتی ہے۔ ان دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ قریب تین ہزار کلومیٹر ہے اور اب سے پہلے یہ سفر 22 گھنٹوں میں طے کیا جاتا تھا۔
تصویر: imago/UPI Photo
تھالیس
اس ریل گاڑی کا شمار بھی یورپ کی تیز رفتار ٹرینوں میں ہوتا ہے۔ اس کا آغاز سن 1997ء میں کیا گیا تھا اور تکنیکی طور پر اس کو فرانسیسی ٹرین TGV کے ماڈل پر بنایا گیا ہے اور اس کی اوسطا رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ ٹرینیں جرمنی سے فرانس اور پولینڈ سے فرانس تک جاتی ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ایکسلریشن ایکسپریس
تیز رفتار ٹرینوں کی دنیا میں امریکا نے نسبتاﹰ دیر سے قدم رکھا۔ Acela Express کو سن 1999ء میں بوسٹن، نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان چلایا گیا۔ شمالی امریکا میں چلنے والی یہ واحد تیز رفتار ٹرین ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
شینکانسن
اس ریل گاڑی کا شمار بھی جاپان کی تیز ترین ٹرینوں میں ہوتا ہے۔ اس کا آغاز سن 1964ء میں کیا گیا تھا۔ اس کے پرانے ماڈلز کی اوسطا رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی لیکن اس کے موجودہ ماڈل کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
تصویر: cc-by-sa/D A J Fossett
14 تصاویر1 | 14
یہ بات اہم ہے کہ سلامتی، استحکام اور قوت کے اعتبار سے فیلکون نائن بلاک فائیو راکٹ اپنے سابقہ بلاک فور راکٹ سے زیادہ بہتر ہے۔ اسپیس ایکس اپنے راکٹوں میں مرکزی اسٹیج بوسٹر کو دوبارہ زیراستعمال لائے جانے والا بناتی ہے، یعنی راکٹ کے ایندھن والے حصے، جنہیں زمینی کشش سے راکٹ کو باہر نکالنے کے لیے ٹینکوں کے بہ طور استعمال کیا جاتا ہے، انہیں باحفاظت اتار لیا جاتا ہے اور معمولی مرمت کے بعد دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔
اس طرح راکٹ کی پرواز کی مجموعی قیمت نہایت کم ہو جاتی ہے۔ اسپیس ایکس اسی طریقہء کار کے تحت خلا کے لیے کمرشل پروازیں شروع کر رہا ہے۔