1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلیجی ممالک کو نیٹ فلکس کے کس مواد پر اعتراض ہے؟

7 ستمبر 2022

خلیجی ممالک نے 'قابل اعتراض' پروگراموں کا نام تو نہیں لیا تاہم کہا کہ وہ 'اسلامی اقدار سے متصادم' ہیں۔ سرکاری سعودی ٹی وی نے ایک انٹرویو نشر کیا ہے، جس میں نیٹ فلکس کو 'ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کا معاون' قرار دیا گیا۔

Netflix Logo
تصویر: Charly Triballeau/AFP/Getty Images

سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے دیگر عرب ممالک نے چھ ستمبر منگل کے روز نیٹ فلکس سے کہا کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے نشر ہونے والے ''قابل اعتراض مواد'' کو فوری طور پر ہٹا لے۔

خلیج کونسل کے اراکین نے اس سلسلے میں ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ مواد ''اسلام اور معاشرتی اقدار کے اصولوں سے متصادم ہے۔'' ان ممالک نے اس متنازعہ مواد کے نہ ہٹائے جانے کی صورت میں نیٹ فلکس کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی دھمکی دی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ نیٹ فلکس اپنے پلیٹ فارم سے ایسا مواد نشر کر رہا ہے، جس سے خلیجی ممالک میں میڈیا مواد سے متعلق کے نافذ اصول و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے اپنے سرکاری چینلز پر اس حوالے سے بیان جاری کیا ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع تفریحی پروگرام نشر کرنے والے ادارے 'نیٹ فلکس' نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

پاکستانی مذہبی گروپ جنسی تبدیلی کے قانون میں ترمیم کے خواہش مند

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، عمان اور قطر پر مشتمل مشرق وسطیٰ کے چھ ممالک کا ایک سیاسی اور اقتصادی اتحاد ہے۔

سعودی نے ہم جنسی پرستانہ تعلقات کی مذمت کی

منگل کے روز سعودی عرب کے ایک حکومتی ٹیلیویژن چینل نے انسانی رویے کی ماہر ایک خاتون کا انٹرویو نشر کیا، جنہوں نے نیٹ فلکس کو ''ہم جنس پرستی کا ایک باضابطہ اسپانسر'' قرار دیا۔

اسی انٹرویو کے دوران، ایک کارٹون شو کی فوٹیج بھی نشر کی گئی جس میں دو خواتین گلے مل رہی تھیں، حالانکہ اس کا ایک حصہ دھندلا کر دیا گیا تھا۔

ماضی میں مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک ان کمپنیوں سے ایسے مناظر ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں، جو مرد یا خواتین ہم جنس پرستوں کے بوس و کنار پر مبنی ہوںتصویر: Chris Delmas/AFP/Getty Images

سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے پروگرام کا ایک اور حصہ نشر کیا، جس میں کہا گیا کہ اگر یہ پروگرام بچوں تک پہنچا تو نیٹ فلکس پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔ جی سی سی نے بھی اپنے مشترکہ بیان میں بچوں کے حوالے سے ایک پروگرام کے بعض مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایل جی بی ٹی کیو مواد کو ہٹانے کا مطالبہ

اگرچہ ابھی واضح نہیں ہے اور صرف یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ متعدد ممالک نے ایل جی بی ٹی کیو سے متعلق مواد کو ہی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ماضی میں مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک ان کمپنیوں سے ایسے مناظر ہٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں، جو مرد یا خواتین ہم جنس پرستوں کے بوس و کنار پر مبنی ہوں۔

گزشتہ جون میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسے مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک نے ڈزنی کی اینیمیٹڈ فیچر فلم 'لائٹ ایئر' کی سینما گھروں میں نمائش پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس فلم میں ہم جنس پرستی پر مبنی تعلقات کے کردار دکھائے گئے تھے، جو ان ممالک میں میڈیا ریگولیٹری معیارات کے خلاف ہے۔

اس کے بعد ڈزنی پلس اسٹریمنگ سروس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کا مواد خلیجی ممالک میں ''مقامی اصول و ضوابط کی ضروریات کے مطابق'' ہونا چاہیے۔

مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل سمجھا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پیر کے روز ہی ایران نے ''انسانی ا سمگلنگ'' کے الزام میں ایل جی بی ٹی کیو سے تعلق رکھنے والے بعض کارکنان کو موت کی سزا سنائی ہے۔ 

ہم جنس پسندی: حقوق میں اضافہ لیکن کئی ممالک میں ممنوع

سن 2019 میں ہی نیٹ فلکس کو سعودی عرب میں اپنی اسٹریمنگ سروس سے ''حسن منہاج کے جذبہ حب الوطنی'' نامی ایک پروگرام کو ہٹانا پڑا تھا، کیونکہ اس پروگرام میں سعودی سلطنت پر تنقید کی گئی تھی اور سعودی حکمراں خاندان کو یہ برداشت نہیں تھا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

ایرانی ہم جنس پرست ایران سے باہر بھی خوف کا شکار

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں