1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

یورپ، خلیجی ممالک یوکرین اور مشرق وسطیٰ پر لین دین کے خواہاں

17 اکتوبر 2024

یورپی یونین نے خلیجی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ افتتاحی اجلاس کے دوران اپنے مشترکہ بیان میں روس کی سخت مذمت پر زور دیا۔ اس کے بدلے میں خلیجی ریاستوں نے اسرائیل کے خلاف سخت الفاظ کے استعمال کے لیے دباؤ ڈالا۔

محمد بن سلمان ایمانوئل ماکروں کے ساتھ
خلیجی ممالک کے مہمانوں کی فہرست میں سب سے بڑا نام محمد بن سلمان کا ہے، جو سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سیاسی محاذ پر الگ تھلگ پڑ گئے تھےتصویر: NICOLAS TUCAT/AFP/Getty Images

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بدھ کے روز برسلز میں یورپی یونین اور خلیجی تعاون کونسل کے چھ ممالک کے درمیان ہونے والی پہلی سربراہی کانفرنس میں سرخ قالین پر ٹہلتے ہوئے اور صحافیوں کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آئے جبکہ وہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے ساتھ سنجیدہ گفتگو میں بھی مصروف تھے۔

خلیجی ممالک کے مہمانوں کی فہرست میں سب سے بڑا نام محمد بن سلمان کا ہے، جو سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سیاسی محاذ پر الگ تھلگ پڑ گئے تھے، تاہم اب وہ بالکل ٹھیک لگے اور صحیح معنوں میں ان کی واپسی ہوتی دکھائی دی۔ 

ٹرمپ کے مشرقی وسطٰی امن منصوبے پر یورپی یونین کی تنقید

گرچہ انسانی حقوق کے کچھ گروپوں نے ان کی موجودگی پر تنقید کی تاہم، جب یورپی یونین کے سفارت کاروں سے اس بارے میں دریافت کیا گيا تو انہوں نے اس بارے میں صرف یہ کہا کہ انہوں نے "اس بارے میں کچھ بھی نہیں سنا" ہے۔

اس کے بجائے ان کی توجہ کہیں اور تھی اور دونوں فریق ایک دوسرے پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنے علاقوں میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے بارے میں سوچنے کے طریقے کار پر بات کریں۔

فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر اسرائیل تسلیم نہیں، سعودی عرب

یورپی یونین روس کی سخت مذمت کی خواہاں

یورپی یونین اور خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) دونوں کے ذرائع نے بتایا کہ بدھ کے روز کے اجلاس سے قبل حتمی مشترکہ بیان پر مذاکرات مشکل تھے، جس میں ہفتوں کا وقت لگا۔ یورپ کی خواہشات کی فہرست میں سرفہرست یوکرین پر حملے کے لیے ماسکو کی مذمت کرنے والے سخت الفاظ تھے۔

یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے بتایا کہ امیر خلیجی ریاستوں کا گروپ جی سی سی، جس میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور عمان شامل ہیں، مشترکہ بیان کے متن میں روس کا براہ راست حوالہ نہیں چاہتے تھے۔

بالآخر رہنماؤں نے سن 2022 کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے الفاظ پر سمجھوتہ کیا اور کہا گیا کہ وہ "روسی فیڈریشن کی طرف سے یوکرین کے خلاف جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔"

امریکہ اور یورپی یونین کو ’گلوبل سونگ اسٹیٹس‘ کے ساتھ رابطہ بڑھانا چاہیے، رپورٹ

یورپی کونسل آن فارن ریلیشن تھنک ٹینک کی وزٹنگ فیلو سنزیا بیانکو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی ریاستیں روس کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے تعلقات پر بات کرنے کی خواہشمند ہیں۔

گرچہ انسانی حقوق کے کچھ گروپوں نے برسلز میں محمد بن سلمان کی موجودگی پر تنقید کی، تاہم یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اس بارے میں صرف یہ کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں سنا ہےتصویر: Johanna Geron/REUTERS

وہ کہتی ہے کہ ایک طرف، "قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے متحارب فریقوں کے درمیان اہم ثالثی کی کوششیں کی ہیں، جیسے کہ روس میں زیر حراست یوکرینی بچوں کی رہائی اور جنگی قیدیوں کے تبادلے پر ان کی زبردست ثالثی کی کوششیں، جبکہ اس حوالے سے یورپ اور خلیج کے درمیان کوئی مشترکہ قدر نہیں پائی جاتی ہے۔"

یورپی یونین اس کانٹے دار موضوع سے بھی نمٹنا چاہتی تھی کہ روس پر جو مغربی پابندیاں عائد ہیں ان سے کیسے بچا جا سکے۔ ڈی ڈبلیو نے بیان کے دو پہلے مسودوں کو دیکھا تھا، جس میں "پابندیوں سے بچاؤ کی روک تھام" کا واضح حوالہ دیا گیا لیکن برسلز کی طرف سے دی گئی رعایت میں، حتمی متن کے اندر "پابندی والے اقدامات اور ان کے نفاذ پر بات چیت کو مضبوط بنانے" کا مبہم حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

جمال کے حقیقی قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، خدیجہ چنگیز

خلیجی ریاستوں کا مشرق وسطیٰ پر سخت زبان پر زور

مشرق وسطیٰ کے کئی حصوں میں تشدد کی لہر جاری ہے اور ایسے میں خلیجی ریاستوں نے اپنی طرف سے یورپی یونین کے ہم منصبوں کو اسرائیل کے خلاف سخت تنقید کرنے پر زور دیا۔

مشترکہ اعلامیہ میں غزہ اور لبنان دونوں میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور "اسرائیلی حکومت کے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کو مزید وسعت دینے اور آبادکاروں کی چوکیوں کو قانونی حیثیت دینے کے فیصلوں کی مذمت کی گئی ہے۔"

لیکن جی سی سی کے ایک ملک سے تعلق رکھنے والے ایک ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یوکرین پر اتفاق رائے کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ سے متعلق زبان سے انہیں "مایوسی" ہوئی ہے۔

محقق سنزیا بیانکو نے بھی خبردار کیا کہ جب خلیجی ریاستوں کے ساتھ بات چیت کی بات آتی ہے تو یورپیوں کو "لیکچر کم دینے اور زیادہ سننے کی ضرورت ہو گی، خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے متعلق مسائل پر۔"

سعودی میزبانی میں جی 20 اجلاس: ’یورپی غیر حاضری مفاد میں نہیں‘

یورپی یونین پر براہ راست تنقید کیے بغیر قطری رہنما شیخ تمیم بن حماد الثانی نے برسلز میں اپنی افتتاحی تقریر میں "کسی بھی دوہرے معیار" کے خلاف خبردار کیا، جب کہ ملک کے وزیر خارجہ نے برسلز میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ممالک کو اپنے اصولوں کے بارے میں "سلیکٹیو" نہیں ہونا چاہیے۔

ایرانی اور اسرائیلی تنازعہ، سن 2020 کا ایک سنگین مسئلہ

ایران کے بارے میں محتاط الفاظ

تاہم ایران سے متعلق بیان میں جو زبان استعمال کی گئی وہ زیادہ مفاہمت آمیز تھی۔ مشترکہ بیان میں یورپی یونین اور جی سی سی نے "ایران پر زور دیا کہ وہ علاقائی کشیدگی میں کمی کو آگے بڑھائے۔"

ان کا کہنا ہے کہ انہیں "افسوس" ہے کہ ایران کی "بے لگام جوہری پیش رفت نے تہران کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے تشکیل دیے گئے سفارتی معاہدوں کی طرف واپسی کو زیادہ مشکل بنا دیا۔"

امیر خلیجی ریاستوں کا گروپ جی سی سی، جس میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور عمان شامل ہیں، جس سے یورپی یونین کے رہنماؤں کے مھاکرات ہوئےتصویر: LUDOVIC MARIN/AFP

یورپی یونین کے سفارت کاروں نے کہا کہ خلیجی ریاستیں اسرائیل پر ایران کے حالیہ میزائل حملوں اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ براہ راست تنازعے میں ملوث حوثی باغیوں کی حمایت کے باوجود سخت تنقیدی زبان سے گریز کرنا چاہتی ہیں۔

جی سی سی ریاست کے ایک ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایران کے حوالے سے، صورتحال انتہائی خطرناک اور انتہائی حساس ہے۔ جی سی سی ممالک ایران کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے نمٹ رہے ہیں اور سفارت کاری ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔"

یورپی یونین اور عرب لیگ کی سمٹ شروع ہو گئی مگر توقعات کم

تجارت، سفر اور توانائی پر مزید تعاون

اس اجلاس میں لیڈروں کے ذہن میں صرف جغرافیائی سیاست ہی نہیں تھی۔ دونوں فریقوں نے کہا کہ وہ بلاک ٹو بلاک ایک تجارتی معاہدے پر بات چیت کو "آگے لے جانے" کا "مقصد" رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ پہلے آیا تھا، تاہم سن 2008 کے بعد سے اس پر برف پر جمی ہوئی ہے۔

یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے کہا کہ جی سی سی کے اندر اس بات پر تناؤ موجود ہے کہ آیا خلیجی گروپ کے طور پر یورپی یونین کے ساتھ تجارت کو آگے بڑھانا ہے یا پھر تنہا دو طرفہ سودے کی تلاش کی جائے۔

فریقین نے دونوں بلاکس کے درمیان سفر کرنے کے لیے لوگوں کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے "کام کرنے" پر بھی اتفاق کیا۔ کچھ خلیجی ریاستیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چھوٹ پر زور دے رہی ہیں کہ ان کے شہری زیادہ آسانی سے سیاحوں کے طور پر یورپی یونین کا سفر کر سکیں، تاہم ابھی تک اس درخواست کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔

یمنی جنگ میں یورپی ہتھیار ’جلتی پر تیل‘ ہیں، یورپی پارلیمان

جی سی سی کے ایک ذریعے نے بات چیت کے موقع پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم نے ویزا کو آزاد کرنے کے لیے تمام تقاضے پورے کر لیے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اب زیادہ سیاسی مرضی کا سوال ہے۔"

یوکرین میں روس کی جنگ کے نتیجے میں یورپی یونین بھی توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے پر آمادہ ہے، کیونکہ اس نے خود کو اب روسی ایندھن پر انحصار سے چھٹکارا دلایا ہے۔ گیس اور تیل سے مالا مال خلیجی ریاستیں اس بلاک کے لیے کلیدی فراہم کنندہ بن چکی ہیں اور دونوں فریقوں نے کہا کہ وہ اب توانائی کے تعاون کو "تیز" کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ص ز/ ج ا (روزی برشارڈ)

سعودی عرب میں پھانسیاں اور احتجاج

02:26

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں