1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلیجی ممالک سے تعاون پر شبہ نہیں ہونا چاہیے، نواز شریف

شکور رحیم، اسلام آباد13 اپریل 2015

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلیج تعاون کونسل میں شامل ممالک کے ساتھ تعاون پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

تصویر: Getty Images/S. Gallup

یمن اور سعودی عرب کی صورتحال پر ایک اہم مشاورتی اجلاس پیر 13 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف، وزیر اطلاعات پرویز رشید، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز، خصوصی معاون برائے خارجہ امور طارق فاطمی اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری شریک ہوئے۔

یہ اجلاس بظاہر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد منعقد ہوا جس میں انہوں نے یمن کے معاملے پر مبہم مؤقف اپنانے پر پاکستان کو بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دی تھی۔

اجلاس کے بعد ایک بیان میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے یمن کے معاملے پر 10 اپریل کو پارلیمنٹ سے متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد اندرون اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ پر متعدد تبصرے دیکھے۔ اس صورتحال میں یہ ضروری تھا کہ بحران کے مخلتف پہلوؤں پر پاکستان کی پوزیشن واضح کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی شروع سے ہی سعودی عرب کے ایک اہم اسٹریٹجک حلیف ہونے اور حرمین الشریفین کی حفاظت کے دو نقاط پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور استحکام پاکستان کی خارجہ پالیس کا بنیادی ستون ہے۔

انہوں نے سعودی عرب کو یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی خراب صورتحال میں پاکستان اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔ انہوں نے حوثی قبائلیوں اور دیگر غیر ریاستی عناصر کی طرف سے یمن کی جائز حکومت کا تختہ الٹنے کی شدید مذمت کی اور یمن میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستانی وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستانی پارلیمان کی طرف سے منظور کی گئی مشترکہ قرارداد نے مسئلے کے حل میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے۔

قرارداد میں واضح اور دوٹوک طور پر اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت اور حرمین الشریفین کو کسی خطرے کی صورت میں پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے بڑے پیمانے پر شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہونے کے باوجود سعودی عرب کو یہ یقین دہانی کرائی گئی: ’’ہم نے زمینی صورتحال اور سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو درپیش خطرات کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ہی سعودی قیادت کے ساتھ روابط تیز کر رکھے ہیں۔‘‘

وزیر اعظم نواز شریف نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ صدر ہادی کی حکومت کی بحالی یمن میں قیام امن کی سمت میں ایک اہم قدم ہو گا۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے گزشتہ ہفتے دورہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ حوثی باغیوں کی جانب سے یمن کی جائز حکومت کا پرتشدد طریقے سے تختہ الٹنا ایک خطرناک مثال قائم کرے گا اور اس کے پورے خطے پر اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان یمن کے بحران کے حل کے لیے کوششوں میں تیزی لائے گا، نوازشریفتصویر: Reuters/N. Quaiti

نواز شریف نے کہا، ’’ان(جواد ظریف ) پر زور دیا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ایرانی اثر ورسوخ استعمال کریں۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے بھی رابطے میں ہیں تاکہ انہیں یقین دلا سکیں کہ ان کی مایوسی بظاہر پارلیمنٹ کی قرارداد کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان دوستوں اور اسٹریٹجک حلیفوں کو ترک نہیں کرتا اور خاص کر ایک ایسے وقت میں جب ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔‘‘

پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت خلیج تعاون کونسل کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے: ’’خلیجی ممالک کے ساتھ یکجہتی کی پالیسی پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں سعودی قیادت کی مشاورت کے ساتھ پاکستان یمن کے بحران کے حل کے لیے کوششوں میں تیزی لائے گا۔

اسی دوران پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی عرب کے وزیر برائے مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز نے حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام کے راہنما فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے بھی یمن میں براہ راست فوج بھیجنے کی مخالفت کرتے ہوئے معاملے کے سیاسی حل پر زور دیا تھا۔ ماضی میں سعودی عرب کے انتہائی قریب سمجھی جانے والی جے یوآئی کے یمن میں فوج نہ بھجوانے کے مؤقف کو ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جارہا تھا۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں سعودی وزیر مذہبی امور کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کا مقصد یمن فوج بھجوانے کے لیے ان کی تائید حاصل کرنا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں