خلیجی ممالک میں ورکرز پر کورونا وائرس کی لٹکتی ہوئی تلوار
30 مارچ 2020
کورونا وائرس کے وبا کے باعث خلیجی ملکوں میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ايسے ميں وہاں کام کرنے والے لاکھوں غیر ملکی ورکرز غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔
اشتہار
خليجی ممالک ميں آجرین نے ملازمین کی اجرتیں روک دی ہیں یا انہیں ملازمت سے نکال دیا ہے، بعض ورکرز کو وطن لوٹنا پڑا ہے یا پھر وہ پھنس گئے ہیں۔
ایک ستائیس سالہ پاکستانی انجینيئر کا کہنا تھا، ”پچھلے آٹھ دس دنوں سے لاک ڈاون کی وجہ سے ہم قید ہوکر رہ گئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئی ہیں۔ حکومت کھانا تو فراہم کر رہی ہے لیکن کئی دنوں کے بعد اور وہ بھی بہت تھوڑی مقدار میں۔“
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں ڈھیر سارے لوگوں کو رہنا پڑ رہا ہے اور صفائی ستھرائی کا خاطرخواہ انتظام بھی نہیں ہے، اس لیے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان ورکروں کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئی ہیں اور انہیں یا تو من مانے طور پر برطرف یا پھر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ يہ صورتحال ان کی آمدنی پر انحصار کرنے والے کنبوں کے لیے ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کے خلیجی امور سے وابستہ حبہ ضیاء الدین نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے مہاجر ملازمین کو لیبر گورننس سسٹم کی وجہ سے پہلے سے ہی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان قوانین کی وجہ سے آجرین کو ان مہاجر ورکرز پر بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں جس کا وہ بے جا استعمال اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ خلیجی ملکوں میں کورونا وائرس کے اب تک 3200 معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد ورکروں کو’کیمپوں میں قید‘ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملکوں میں غیر ملکی ورکرز میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور نیپاليوں کی ہے۔ یہ دنیا بھر میں مہاجر ورکرز کی تعداد کا تقریباً دس فیصد ہیں۔
خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے بیشتر غیر ملکی مزدوروں کو خوف ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے انہیں جہاں صحت کو خطرہ لاحق ہے وہیں انہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
سعودی عرب، جہاں تقریباً دس ملین غیر ملکی ورکرز کام کرتے ہیں، میں کام کرنے والے مزدوروں کو شکایت ہے کہ ان کے مالکان انہیں کام کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں جب کہ ان کے سعودی رفقائے کار کو تنخواہوں کے ساتھ قرنطینہ چھٹی دی جاری ہے۔ ایک مزدور نے بتایا کہ اس کے مالک نے کہا کہ اگر اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے تو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر چلا جائے، لیکن وہ طبعیت کی خرابی کے باوجود کام کرتے رہنے کے لیے مجبور ہے۔
ریاض میں ایک عرب سفارت کار نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ 'بہت سے شعبوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے نجی سیکٹر میں کام کرنے والے بہت سے ورکز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ ان کے مالکان تنخواہوں کے بغیر رہنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔‘
سعودی عرب کے بعد غیر ملکی ورکرز کی سب سے زیادہ 8.7 ملین تعداد متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے، اس کے بعد کویت کا نمبر ہے جہاں یہ تعداد 2.8 ملین ہے۔
کویت میں ایک سیلون کی منیجر مصری خاتون ام صابرین کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت نے غیر ضروری بزنس کو بند کرا دیا ہے اس لیے ان کی تنخواہ رو ک دی گئی۔ اب وہ اپنے آجر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچ رہی ہے لیکن بیشتر لوگ اتنی ہمت نہیں کر پاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے اپنے وطن میں صحت کی صورت حال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اس صورت حال سے کافی فکر مند ہے۔ قطر میں آئی ایل او کے سربراہ ہوشن ہمایوں پور کہتے ہیں کہ اب تک تو بڑے پیمانے پر مزدوروں کو ملازمت سے نکالا نہیں گیا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو ان ملکوں کو بہت بڑے اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا جن سے ان مزدوروں کا تعلق ہے۔ اور اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی)
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی بعض صنعتیں
چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا نے کئی صنعتی اداروں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اداروں کے لیے یہ وبا منفعت کا باعث بنی ہے اور کئی ایک کو مسائل کا سامنا ہے۔ بعض اس وائرس کو عالمی طلب میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: VLADIMIR MARKOV via REUTERS
جرمن چانسلر ووہان میں
سن 2019 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ووہان میں ویباسٹو فیکٹری کے بڑے پلانٹ کے دورہ کیا تھا۔ اب یہ کارخانہ بند ہے۔ جرمن ادارے زیمینز کے مطابق اس وبا کے دوران ایکس رے مشینوں کی طلب زیادہ ہونے کا امکان کم ہے اور فوری طور پر کم مدتی کاروباری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
صفائی ستھرائی اور صفائی ستھرائی
کورونا وائرس کی وبا سے کیمیکل فیکٹریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ڈس انفیکشن سیال مادے کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جراثیم کش پلانٹس کو زیادہ سپلائی کے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی سپلائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
دوکانیں اور ریسٹورانٹس
ووہان میں کے ایف سی اور پیزا ہٹ کے دروازے گاہکوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ سویڈن کے کپڑوں کے اسٹور ایچ اینڈ ایم کی چین بھر میں پینتالیس شاخیں بند کر دی گئی ہیں۔ جینر بنانے لیوائی کے نصف اسٹورز بند کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے بڑے اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ آن لائن بزنس سے ان کو کسی مالی نقصان کا سامنا نہں ہے۔
تصویر: picture-alliancedpa/imaginechina/Y. Xuan
ایڈیڈاس اور نائیکی
کھیلوں کا سامان بنانے والے امریکی ادارے نائیکی کی طرح اُس کے جرمن حریف ایڈیڈاس نے بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اپنے بیشتر اسٹور بند کر دیے ہیں۔ مختلف دوسرے اسٹورز بھی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے ان اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت خیال کیا جا رہا ہے۔ اشتہاری کاروباری سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Imaginechina
کارساز اداروں کی پریشانی
اس وائرس کی وبا سے چین میں غیرملکی کار ساز اداروں کی پروڈکشن کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مختلف کار ساز ادارے اپنی فیکٹریوں کو اگلے ہفتے کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی چین میں تینتیس فیکٹریاں ہیں اور ادارہ انہیں پیر دس فروری کو کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گاڑیوں کی پروڈکشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
تصویر: Imago Images/Xinhua
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
مرسیڈیز بنانے والے ادارے ڈائملر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پیر سے اپنی فیکٹری کھول دیں گے۔ فیکٹری کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ کارخانے کے ورکرز گھروں سے نکل بھی سکیں گے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی انسانی جان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کئی گاڑیوں کو فروخت کرنے والے اداروں کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ہونڈا کی احتیاط
جاپانی کار ساز ادارے ہونڈا کے فاضل پرزے بنانے والی تین فیکٹریاں ووہان شہر میں ہیں۔ یہ چینی قمری سال کے آغاز سے بند ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ تیرہ فروری تک بند رہیں گے۔ ایک ترجمان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ہونڈا کی پروڈکشن شروع ہو سکے گی کیونکہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اضافی سپلائی روانہ کرنے کا امکان نہیں
کورونا وائرس سے بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں کا پیدا ہونا یقینی خیال کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال بہت گھمبیر ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی مثال کار انڈسٹری ہے۔ جنوبی کوریائی کار ساز ادارے ہنڈائی نے تو اپنے ملک میں پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چین سے اضافی پرزوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ساری دنیا میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Reuters/Aly Song
چینی لوگ بھی محتاط ہو کر دوری اختیار کر رہے ہیں
کورونا وائرس کے اثرات جرمن فیسٹیول پر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے چینی شہری وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں اور اس باعث شرکت سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ فرینکفرٹ میں صارفین کے سامان کے بین الاقوامی فیسٹیول ایمبینٹے میں کم چینی افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ لفتھانزا سمیت کئی دوسری فضائی کمپنیوں نے وائرس کی وجہ سے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
تصویر: Dagmara Jakubczak
جرمنی میں وائرس سے بچاؤ کی تیاری
فرینکفرٹ میں شروع ہونے والے فیسٹیول میں شرکا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قرنطینہ یا کوارنٹائن تیار کی گئی ہے تا کہ کسی بھی مہمان میں اس کی موجودگی کی فوری تشخیص کی جا سکے۔ ووہان سے جرمنی کے لیے کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کے لیے زیادہ تر پروازیں بیجنگ اور ہانگ کانگ سے اڑان بھرتی ہیں۔