خطے میں اضافی امریکی فوجی عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ، ایران
25 مئی 2019
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ انتہائی کشیدگی کے موجودہ ماحول میں خلیج فارس کے علاقے میں امریکا کے ڈیڑھ ہزار اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی واشنگٹن کا ایک ’خطرناک فیصلہ‘ اور عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اشتہار
تہران سے ہفتہ پچیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ملکی میڈیا کو بتایا کہ خلیج کے خطے میں امریکا کی اضافی عسکری موجودگی نہ صرف ایک پرخطر اقدام ہے بلکہ اس کا ’عالمی امن اور سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ‘ ہونے کی وجہ سے مقابلہ بھی کیا جانا چاہیے۔
محمد جواد ظریف نے ہمسایہ ملک پاکستان کے اپنے دورے کے بعد واپس تہران پہنچنے پر ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا کو بتایا، ’’امریکا اپنی جارحانہ پالیسیوں کی دلالت کے لیے خطے سے متعلق کئی مختلف دعوے کرتے ہوئے ایسے اقدامات کر رہا ہے، جو خلیج فارس کے علاقے میں کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کاکہنا ہے کہ وہ خلیج کے خطے میں اپنی عسکری موجودگی میں جو اضافہ کر رہی ہے، اس کا مقصد ایران کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مبینہ طور پر منظور کردہ ’حملوں کی ایک حالیہ مہم‘ کا جواب دینا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کل جمعہ چوبیس مئی کو خلیج فارس کے علاقے میں مزید ڈیڑھ ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی تھی، اس سے قبل واشنگٹن نہ صرف اسی مہینے اپنے جنگی طیارہ بردار بحری جہاز بھی خطے میں بھیج چکا ہے بلکہ اس نے بی باون طرز کے بمبار طیارے اور اپنے میزائل ڈیفنس سسٹم والے جنگی بحری جہاز بھی خطے میں تعینات کر دیے تھے۔
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس مئی کے مہینے میں واشنگٹن کے ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے سے اخراج کا اعلان بھی کر دیا تھا، جو کئی بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد 2015ء میں باراک اوباما کے دور صدارت میں طے پایا تھا۔
ایرانی جوہری معاہدے سے اخراج کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف دوبارہ سخت تر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ پھر گزشتہ ماہ انہی پابندیوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس نے وہ آخری استثنائی اقدامات بھی منسوخ کر دیے تھے، جو ایران مخالف پابندیوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں چند امریکی اتحادی ممالک کے لیے کیے گئے تھے۔
تہران مخالف امریکی پابندیوں میں تازہ ترین شدت ایران کی پہلے ہی سے مشکلات کا شکار معیشت کے لیے مزید مسائل کی وجہ بن رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ماضی میں ان امریکی پابندیوں کی مخالفت کرنے والے خطے کے اہم ممالک، مثلاﹰ ترکی بھی، اب یہ اعلان کر چکے ہیں کہ انہوں نے ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا ہے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔