خلیفہ حفتر کی امن معاہدے پر دستخط کے بغیر ہی ماسکو سے روانگی
14 جنوری 2020
کئی مرتبہ کی تاخیر کے بعد لیبیا کی بااثر شخصیت خلیفہ حفتر ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے طے پانے والے امن معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہی واپس لیبیا چلے گئے ہیں۔ روسی حکام اس سلسلے میں فریقین پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اشتہار
روسی وزارت خارجہ نے آج منگل کو تصدیق کر دی کہ کئی گھنٹوں کے غور و فکر اور دانستہ تاخیر کے بعد خلیفہ حفتر جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہی ماسکو سے روانہ ہو گئے ہیں۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ حفتر نے امن معاہدے پر غور کے لیے منگل کی صبح تک کا وقت مانگا تھا تاہم پھر وہ روسی حکام کو اپنے کسی فیصلے سے آگاہ کیے بغیر ہی ماسکو سے رخصت ہو گئے۔
روسی وزارت خارجہ سے مزید بتایا کہ وہ کسی امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کی خاطر لیبیا کے جنگی فریقین کے ساتھ بدستور رابطوں میں ہیں۔ اس سے قبل روسی حکام نے مذاکرات میں پیش رفت کی اطلاع دی تھی۔
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کے بقول، ''ہم اس سمت میں اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ فی الحال کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اس معاہدے میں لیبیا میں مکمل فائر بندی کی بات کی گئی تھی، جس پر آئندہ ویک اینڈ سے عمل درآمد ہونا تھا۔
لیبیا کے تنازعے کے زیادہ تر گروہ گزشتہ نو ماہ سے جاری لڑائی کو روکنے کے لیے اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں اور ان میں اقوام متحدہ کی تسلیم کردہ وہ ملکی حکومت بھی شامل ہے، جس کی قیادت فائز السراج کے ہاتھوں میں ہے۔
خلیفہ حفتر ماضی میں لیبیا کی فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز تھے اور اب وہ ایک جنگی سردار بن چکے ہیں۔ ان کی حامی فوج کا نام 'لیبین نیشنل آرمی‘ ہے اور ملک کے مشرقی حصے کی باگ ڈور انہی کے ہاتھوں میں ہے۔
اب اس تنازعے کے تمام فریق جنوری کے اواخر میں برلن میں ملاقات کریں گے تاکہ مستقل فائر بندی کے لیے کسی امن معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ تاہم موجودہ حالات میں یہ واضح نہیں کہ برلن منعقدہ آئندہ اجلاس میں کیا پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
لیبیا 2011ء میں معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے بحران کا شکار ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے حمایت یافتہ باغیوں نے قذافی کو ان کی گرفتاری کے دوران ہی ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے مختلف جنگجو گروہ اس شمالی افریقی ملک میں اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔