خلیفہ حفتر کی حامی فورسز لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے فقط تیس کلومیٹر دور سکیورٹی رکاوٹوں کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ عالمی برادری نے خلیفہ حفتر کو کسی بھی عسکری کارروائی سے دور رہنے کا کہا ہے۔
اشتہار
خلیفہ حفتر کی خودساختہ ’لیبیئن نیشنل آرمی‘ کے آپریشنز کے شعبے کے سربراہ جنرل عبدالسلام نے کہا ہے کہ ان کی فوج نے بغیر کسی لڑائی کے طرابلس کے قریب متعدد سکیورٹی ناکے اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔
حفتر کی فورسز نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ ملک کے مغربی حصوں میں’دہشت گردوں اور مسلح گروہوں‘ کے خلاف کارروائی کرنے والی ہیں۔ ان فورسز نے رواں برس کے اوائل میں ملک کے متعدد جنوبی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ درجنوں با وردی افراد اور کم از کم 15 ٹرک جن پر طیارہ شکن توپین بھی نصب ہیں، طرابلس سے صرف 27 کلومیٹر دور واقعے کنٹرول پوائنٹ ’پل 27‘ پر قابض ہو چکی ہیں۔ یہ علاقہ لیبیا کی بین الاقوامی طور پر مسلمہ اتحادی حکومت کے انتظام میں آتا ہے۔
دوسری جانب طرابلس تحفظ فورس کے جنگجوؤں کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ حفتر کی فورسز کو روکنے کے لیے عسکری پیش قدمی کرے گے۔ طرابلس تحفظ فورس لیبیا کے مغربی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف مسلح گروہوں نے اتحاد کر کے قائم کی گئی ہے۔
لیبیا میں یونٹی حکومت کے سربراہ فیاض السراج نے خلیفہ حفتر کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیزی‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے اپنی حامی فورسز سے کہا ہے کہ وہ ’تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار‘ رہیں۔
جمعرات کے روز اپنے ایک آڈیو پیغام میں خلیفہ حفتر نے کہا، ’’وقت آ گیا ہے کہ ملک کے شہریوں اور اداروں کو محفوظ بنانے کے لیے کارروائی کی جائے۔‘‘
لیبیا کے خلیفہ ہفتر ایک دور میں معمر قذافی کے انتہائی وفادار سمجھے جاتے تھے مگر پھر امریکی حمایت میں وہ قذافی مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش رہے اور اب یہ جنرل ملک کے مستقبل میں ایک کلیدی اثرورسوخ کی حامل شخصیت کہلاتا ہے۔ خلیفہ حفتر لیبیئن نیشنل آرمی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ لیبیا میں خانہ جنگی کے بعد خود ساختہ لیبیئن نیشنل آرمی نے ملک کی کئی اہم آئل فیلڈز اور برآمدی ٹرمینلز پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ ملک کے مشرقی کے علاقوں میں ایک متوازی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
فوجی افسر کے بہ طور حفتر نے سن 1969میں لیبیا میں بادشاہ ادریس کے خلاف کرنل معمر قذافی کی عسکری بغاوت میں حصہ لیا تھا اور حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد کی تھی۔ سن 1987ء میں لیبیا اور چاڈ کے درمیان ہونے والی لڑائی میں لیبیا کی فوج کی کمان خلیفہ حفتر نے کی تھی تاہم وہ یہ جنگ ہار گئے تھے اور انہیں چاڈ کی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ بعد میں سن 1990 میں انہیں چاڈ سے امریکا منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ساتھ مل کر قذافی مخالف کارروائیوں میں شامل رہے۔
حفتر نے قریب دو دہائیاں امریکا میں گزاریں اور وہیں انہوں نے قذافی کے قتل کے منصوبوں پر بھی کام کیا۔ حفتر سن 2011ء میں قذافی کے خلاف نیٹو فورسز کی کارروائی کے دوران لیبیا لوٹے اور تب سے وہ متعدد باغی گروہوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے ایک بڑے فوجی کمانڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔