1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ

26 اپریل 2022

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی خواتین ایتھلیٹس اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ طالبان کے مطابق خواتین کا کسی بھی کھیل کا حصہ ہونا شریعت کے منافی ہے۔

Friba Rezayee
تصویر: Darryl Dyck/empics/picture alliance

''کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی‘‘ افغان کھلاڑی امیراں (نام تبدیل کیا گیا ہے)۔ ''میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میرا قصور فقط اتنا ہے کہ میں کھیلوں میں حصہ لیتی ہوں۔‘‘

2021 میں افغانستان میں جب سے طالبان اقتدار میں آئے۔ امیراں اپنے ملک کی بہترین جوڈو فائیٹرز میں سے ایک تھیں۔ کچھ دن قبل امیراں کے گھر پر طالبان کی جانب سے چھاپا مارا گیا تاکہ وہ کاغذات حاصل کیے جاسکیں جس سے یہ ثابت ہو کے وہ قومی ٹیم کا حصہ رہی ہیں۔

ایک اور ایتھلیٹ فریبہ ریزائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خوش قسمتی سے وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ پورا دن مقامی قبرستان میں چھپی رہی، طالبان اسے وہاں تلاش نہیں کر سکے۔‘‘ اگر وہ کاغذات طالبان کو اس کے گھر سے مل جاتے تو اسے شریعہ کورٹ کے سامنے پیش کیا جاتا جس کے نتیجے میں اسے سو کوڑے کھانے پڑتے یا اسے سرعام پھانسی دے دی جاتی۔‘‘

 ریزائی خود بھی ایک زمانے میں افغانستان کی مشہور جوڈو کھلاڑی رہی ہیں۔ وہ اور ٹریک اینڈ فیلڈ سپرنٹر روبینہ مقیم یار 2004 میں ایتھنز میں ہونے والے اولمپکس میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں۔  

افغانستان: طالبان کی واپسی کے بعد خواتین جج غیر محفوظ

03:01

This browser does not support the video element.

 ریزائی کہتی ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک انقلاب تھا۔ 2011 میں وہ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور انہوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔ جہاں اس 36 سالہ خاتون نے نے امدادی تنظیم ''وومن لیڈرز آف ٹومارو‘‘ یا ''کل کی رہنما خواتین‘‘ کی بنیاد رکھی، جو افغانستان سے آنے والی خواتین پناہ گزینوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہے۔

کابل سے دھمکیاں

افغانستان میں جوڈو کھلاڑیوں کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں امیراں کہتی ہیں، ''ہمیں افغانستان میں خواتین کے لیے جیل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے گھر ہمارے لیے جیل بن چکے ہیں۔‘‘

خواتین مخالف پالیسیوں کے سبب  1996 سے 2001 تک طالبان کی پہلی حکومت کے دوران، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے افغانستان کو 2000 کے سڈنی گیمز سے خارج کر دیا تھا۔  ریزائی کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ''شرعی قانون کی ان کی تشریح کے مطابق، خواتین کے کھیل ایک گناہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح جنسی اشارے مردوں کو بھیجے جاتے ہیں کیونکہ جسمانی سرگرمی کے دوران عورت کا جسم نظر آتا ہے۔ خواتین کو جِم میں ورزش کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘‘

دنیا افغانستان کو بھول گئی ہے

کینیڈا کی حکومت نے پناہ گزینوں کی پالیسی کو اپنی فوج کے افغان مترجموں، سابقہ ​​مقامی افغان فورسز اور ان کے خاندانوں پر مرکوز کیا ہوا ہے۔  ریزائی کہتی ہیں، ''یورپ میں بھی، ان خواتین کے لیے ویزا حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یوکرین کی جنگ چیزوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی  ہے۔ دنیا کی تمام تر توجہ یوکرینی مہاجرین پر مرکوز ہے اور دنیا افغانستان کو بھول رہی ہے۔‘‘

افغانستان میں جوڈو کھلاڑیوں کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں امیراں کہتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین کے لیے جیل کی ضرورت نہیں ہے۔ افغانستان ہی خواتین کے لیے جیل ہےتصویر: Friba Rezayee

افغان حکام پر دباؤ کم ہے

آٹھ ماہ قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، صرف آئی سی سی، عالمی کرکٹ کی گورننگ باڈی نے خواتین کے کھیلوں کے بارے میں افغان موقف کی وجہ سے افغانستان کو بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن بعد ازاں آئی سی سی نے اپنی پوزیشن میں نرمی کی۔ ''وہ افغان خواتین کے کھیلوں کی نگرانی سمیت بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے افغان مردوں کی ٹیم کی حمایت جاری رکھے گی۔‘‘

 ریزائی کھیلوں کی فیڈریشنوں کی کارروائی کو سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''اب دباؤ ڈالنے کا بہترین وقت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بغیر اور خواتین کے کھیلوں کے بغیر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘

امید کی آخری کرن

ریزائی کے لیے ہار ماننا کوئی حل نہیں باوجود اس کے کہ انہیں اکثر اپنے آبائی ملک سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں اس کی عادی ہوں۔جب کوئی ایتھلیٹ اپنا حوصلہ کھو دیتا ہے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ماں سے اس کا بچہ چھین لیں۔ میں بین الاقوامی برادری سے بھی کہہ رہی ہوں کہ وہ نہ صرف افغانستان میں خواتین کھلاڑیوں کی جانیں بچائیں بلکہ ان کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کریں۔ اب بھی امید کی آخری کرن روشن ہے اور اسے بجھنے نہیں دینا چاہیے۔‘‘

اسٹیفان نیسٹلا ( رب/ ع ت)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں