مذاہب انسانوں کے مستقبل سے جڑے سوال کے جواب کے لیے موزوں ہیں۔ ڈی ڈبلیوکے لیے اپنے تبصرے میں انیٹے شاوان کہتی ہیں مذاہب کو فراموش کرنا یورپ کو کمزور بنائے گا۔
اشتہار
بین الاقوامی نیٹ ورکس اور تنظیمیں اس سلسلے میں اہم ہوتی جا رہی ہیں۔ بڑے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اشتراک عمل کی بجائے قومی سیاق پر حل کیا جا سکتا ہے کا بیانیہ حقیقت میں ایک سراب ہے اور یہ تنظیمیں اس سے متعلق عوامی شعور پیدا کر رہی ہیں۔ عالمی وبا نے دنیا بھر کو باورہ کروایا ہے کہ اگر کسی مسئلے سے کوئی بھی دوچار ہو سکتا ہے، تو ایسے میں ہر ایک شخص کا انحصار دوسرے پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ترقی کے معاملے میں بھی حالات مختلف نہیں۔ امن اور حصول ِ امن بھی قومی اور ثقافتی سرحدوں سے ماورا ہو کر ہر شخص کی خواہش کا تقاضا کرتے ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں عالمی نیٹ ورک 'مذاہب برائے امن‘مختلف مذاہب کے درمیان باہمی اعتماد کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس عالمی نیٹ ورک کا مقصد یہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے مشترکہ اقدامات اور اخلاقی معیارات قائم ہوں تاکہ عالمی سطح پر انہیں عام مشترکہ ملکیت سمجھا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان امن قائم کیے بغیر امن کا تصور ناممکن ہے۔ ایسے ہی اقدامات عالمی پارلیمان برائے مذاہب (World Parliament of Religions) بھی سن 1993 میں شکاگو میں اپنے قیام کے بعد سے کر رہی ہے۔ تب اس تنظیم نے عالمی اخلاقیات سے جڑا ایک اعلامیہ بھی منظور کیا تھا۔
اس اعلامیے کا مرکزی جملہ تھا، ''مذاہب کے درمیان امن کے بغیر اقوام کے درمیان امن ناممکن ہے۔ مذاہب کے درمیان امن، مذاہب کے درمیان مکالمت کے بغیر ناممکن ہے۔ مذاہب کے درمیان مکالمت مشترکہ اخلاقی اقدار اور معیارات کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘
جرمن علاقے ٹیوبنگن سے تعلق رکھنے والے تھیولوجین ہانز کیونگ نے عالمی اخلاقیات کی ترتیب میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی تاکہ یہ کام جاری رہے۔ ان کے کام کو چرچ کی جانب سے جزوی طور پر سراہا گیا اور کبھی ان پر عمل نہیں کیا گیا۔
گزشتہ برس جنوبی جرمن شہر لنڈاؤ میں ریلیجنز فار پیس یا مذاہب برائے امن کا دسواں عالمی اجتماع منعقد ہوا اور اب 'بین الاقوامی اسمبلی برائے خواتین، اعتقاد اور سفارت کاری‘ منعقد ہو رہی ہے۔ عالمی وبا کی وجہ سے یہ اسمبلی ورچوئل سطح پر منتقل ہو گی، تاہم ان دونوں تقاریب میں عوامی دلچسپی میں اضافہ بتاتا ہے کہ اس موضوع پر یورپ بھر میں اہم حلقے اس کی اہمیت سمجھ رہے ہیں۔
حالیہ کچھ دہائیوں میں یورپ بھر میں مذاہب کے حوالے سے بے پرواہی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ جملہ یورپ بھر میں سنا جاتا تھا کہ مذاہب کی عام افراد کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں اور اخلاقیات کے لیے مذاہب غیرمفید منبع ہیں۔
دنیا بھر سے امن کے پیغامات
جرمن شہر لنڈاؤ میں ’مذاہب برائے امن‘ کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں شریک مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ڈی ڈبلیو کے ذریعے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کرن کور، سکھ، برطانیہ
درگزر کرنا مفاہمت کا راستہ ہے اور مفاہمت امن کی راہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
راؤنی میٹوکٹیرے، اینسڑیس آف دی کیاپو، ایمازونس، برازیل
تنازعات سے بچنے کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے کو دوست بنانا چاہیے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔ خدا نے پہاڑ سب کے لیے بنائے ہیں۔ خدا نے انسانوں کے لیے بہترین سوچا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے لیے بہترین سوچنا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
پرسکاراکوروکل، ہندو، جرمنی
امن دنیا کا مرکزی دھارا ہے، امن کو آپ خرید نہیں سکتے۔ امن ہمارے اندر ہے۔ اگر ہم سب امن کے لیے پرعزم ہیں، تو یہ رفتہ رفتہ ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
الحاج اسحاق کنلے، مسلم، نائجیریا
میں دنیا بھر کے تمام مذہبی افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نفرت انگیزی سے دور رہیں، کیوں کہ یہ برف کی گیند کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کے جنگ تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ اس کی بجائے، لوگ امن کی تبلیغ کریں اور مختلف مذاہب بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ہائے فودو، بَہائی، جنوبی افریقہ
امن صرف ممکن ہی نہیں بلکہ یہ ضروری بھی ہے۔ یہ اس سیارے کی ارتقاء کی اگلی منزل ہو گا۔ یہ زمین ایک ملک ہو گی اور ہم سب انسان اس کے شہری۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم امن کے قیام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ مشترکہ اقدامات اور روحانی اقدار کے فروغ کا عزم، اس مشکل مرحلے میں ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ریورنڈ جیک بوسٹن، اینگلیکن کرسچن، گنی کوناکری
امن نہیں ہو گا، تو ترقی نہیں ہو گی، ترقی نہیں ہو گی، تو انسانیت نہیں ہو گی۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
امام احسان سکندر، مسلم، بیلجیم
امن کا مطلب ہے محبت۔ اختلافات کو قبول کرنا اور عزت دینا، پھر تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترک اقدار ڈھونڈنا۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کشور ٹھاکر، ہندو، تنزانیہ
ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے سے امن سے جڑ کر رہنا، ہمارے معاشروں میں ترقی کا راستہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
محمد سیف اللہ، مسلم، سنگاپور
امن کو محض ایک طرح کی عیاشی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے تمام افراد کے لیے ایک حقیقی ضرورت سمجھنا چاہیے، اب بھی اور مستقبل کے لیے بھی۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ربی مارسیلو ماٹر، یہودی، ارجنٹائن
لوگوں کے درمیان تعاون اور مکالمت ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
آیت اللہ احمد مبلغی ، مسلم، ایران
اللہ قرآن میں ہمیں امن سے رہنے کا حکم دیتا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کوشو نیوانو، بدھ بھکشو، جاپان
ہماری دنیا تنوع کی وجہ سے خوب صورت ہے۔ ہمیں اس خوب صورتی کا اظہار اسی تنوع سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہم اس دنیا میں امن کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
انتونی سامی تھومائی، کیتھولک مسیح، بھارت
ہر انسان امن چاہتا ہے، جو اس کی زندگی میں تحفظ اور معنی کا احساس دے۔ اس طرح ہم ایک پرامن دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔
امن کو سب سے پہلے اپنے اندر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ پہچاننے کی ضرورت ہے کہ آپ کیا ہیں، جب آپ کے اندر امن ہو گا۔ تو آپ دوسروں کے لیے امن کی تعمیر میں مددگار ہوں گے۔ ہم اسے محبت ڈھونڈ لینا کہتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
14 تصاویر1 | 14
اب تاہم ایک مرتبہ پھر عالمی سیاسیات میں مذاہب کو دیکھا جا سکتا ہے اور یورپ میں بھی ایک مرتبہ پھر یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ مذاہب یورپی مستقبل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔کیوں کہ مذاہب کو نظرانداز کیا گیا تو یہ یورپ کم زور ہو گا۔
مہمان تبصرہ نگار انیٹے شاوان پچھلے پچیس برسوں سے سیاسیات اور سفارت کاری سے منسلک ہیں۔ وہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار تیرہ تک جرمنی کی وفاقی وزیر برائے تعلیم بھی رہیں۔ دو ہزار چودہ سے دو ہزار اٹھارہ تک انہوں نے ویٹیکن میں بہ طور جرمن سفیر خدمات انجام دیں۔ اب وہ جرمن فاؤنڈیشن 'رنگ فار پیس‘ کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔