گھریلو تشدد کے متاثرین عموماﹰ دستیاب وسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مراکش میں ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت خواتین کو شوہروں کے تشدد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے مدد دی جا رہی ہے۔
اشتہار
تدریس کے شعبے سے وابستہ 23 سالہ سلمیٰ دو بچوں کی والدہ ہیں۔ سلمیٰ اپنی شادی کے وہ سات برس کبھی نہیں بھلا سکتیں، جس میں انہیں کئی مرتبہ شدید نوعیت کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران شوہر کی جانب سے انہیں جنسی زیادتی تک کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شوہر انہیں پیٹتا تھا اور قتل تک کی دھمکیاں دیتا تھا۔ ان کا چہرہ ہر وقت سُوجا رہتا تھا، وہ نشے کی عادی ہو گئی تھیں اور ان کا شوہر نشے کے ذریعے انہیں کنٹرول کرتا تھا۔ ایسی حالت میں سلمیٰ طلاق کی طاقت تک نہیں رکھتیں تھیں۔ سلمیٰ کے مطابق، ’’گھریلو تشدد کسی خاتون کی تکریم تک ختم کر دیتا ہے۔‘‘
پھر ایک دن سلمیٰ نے اپنی خاموشی توڑ دی اور ایک ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے اپنی کہانی سب کو بتا دی۔ یہ ریڈیو اسٹیشن ’میک یور وائس ہرڈ‘ یا ’اپنی آواز سنا دو‘ نامی تنظیم کے ساتھ کام کرتا ہے۔ مراکش میں خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے جاری کئی منصوبوں میں سے یہ ایک منصوبہ ہے۔
گو کہ مراکش میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، تاہم شوہروں کے ہاتھوں جنسی ریادتی کا نشانہ بننے والی خواتین عمومی طور پر اب بھی اپنی داستان کسی کو نہیں بتا سکتیں، کیوں کہ مراکشی معاشرے میں یہ معاملہ اب بھی ’ناقابل بیان‘ شے ہے۔
ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے سلمیٰ کی کہانی عوام تک پہنچی اور گھریلو تشدد کے خلاف کام کرنے والی تنظیم نے ان کی نفسیاتی اور قانونی مدد کی۔ اس سے سلمیٰ کو یہ حوصلہ ملا کہ انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اور شوہر خلاف جنسی زیادتی کا مقدمہ قائم کیا گیا۔
یورومیڈیٹیرینین فاؤنڈیشن آف سپورٹ ٹو ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نامی منصوبے کے ذریعے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو عوامی سطح پر اپنی کہانی بیان کرنے اور ان خواتین کی قانونی اور طبی مدد کرنے جیسے امور انجام دیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت خواتین کو قانونی آپشنز مہیا کر کے بااختیار بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا تحفظ کر سکیں۔ یہ منصوبہ خواتین کو گھریلو تشدد کی صورت میں عوامی سطح پر اس تشدد یا ہراسانی کی داستان بیان کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔
اس منصوبے کی بانی خدیجہ خافض کے مطابق، ’’اب تک 120 سے زائد خواتین ہمارے سینمارز میں حصہ لے چکیں ہیں۔‘‘
ان سیمنارز کی مدد سے خواتین کو قانونی امور سمجھائے جاتے ہیں اور گھریلو تشدد کے انسداد کے حوالے سے شعور و آگہی فراہم کی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنا تحفظ یقینی بنا سکیں۔