1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین سے متعلق ہمارے رویے کب بدلیں گے؟

رفعت انجم
8 اگست 2020

ضروری کام کی غرض سے گھر سے نکلنے والی لڑکیاں ہوں یا ذہنی تھکان دور کرنے کے لیے کچھ وقت کے لیے یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں آئی سہیلیاں، لڑکوں کی نظروں اور فقروں سے کوئی وجود زن محفوظ نہیں۔

DW Urdu Blogger Riffat Anjum
تصویر: Privat

لڑکیوں کو دیکھتے ہی مسلسل گھورنے کے علاوہ ایک آدھ فقرہ کسنا تو لڑکے اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ گھر والی ساتھ بھی ہو تب بھی بازار یا پارک میں دوسری عورتوں کو گھورنا مردوں کی عادت بن چکی ہے۔

اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے لباس پر شہوانی تبصرہ کرنا، مرد ساتھی اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے وہ واقعات ہیں جن کی اب وہ عادی ہو چکی ہیں۔

ان واقعات کو اب رپورٹ کرنا تو دور کی بات، ہراسانی کی فہرست میں شامل کرنا بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بالخوصوص خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں اور دفاتر میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جنسی ہراسانی: زمانہ اور فلمیں بدل گئے ہیں

یہ واقعات جب تک جرم نہ بن جائیں منظر عام پر یا تو آتے نہیں یا پھر لوگ کیا کہیں گے؟ گھر والے کیا سوچیں گے؟ کیا میں پھر گھر سے باہر نکل پاوں گی؟ کیا معاشرہ میرے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف میرا ساتھ دے گا؟ یا اسے میرے ہی دامن پر لگا داغ سمجھ کر ساری عمر کا روگ بنا دے گا، جیسے خدشات کی بنا پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ یہی مصلحت بھری خاموشی بالآخر غیرت کے نام پر قتل اور خودکشی جیسی خبروں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں کام کرنے کی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے عزم ظاہر کیے جانے کے بعد بھی صوبائی محتسب کی تعیناتی میں نو سال کی تاخیر ہوئی۔ چلو خیر دیر آید درست آید۔ اس ادارے کے فعال ہونے کے بعد اب تک 77 درخواستیں موصول بھی ہو چکی ہیں، جن میں 35 درخواستیں براہ راست جنسی ہراسانی کے زمرے میں شامل کی گئی ہیں۔

ہراسانی سے متعلق موصول درخواستوں میں سرکاری دفاتر، جامعات، پرائیویٹ دفاتر جن میں این جی اوز بھی شامل ہیں میں کام کرنے والی خواتین کی شکایات شامل ہیں جبکہ ایک مرد نے بھی انصاف کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

صوبائی محتسب رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ صوبے میں موجود ہراسانی کے قوانین کے مطابق تمام سرکاری، نجی ادارے، جامعات محکموں کے اندر ہی ہراسانی سے متعلق انکوائری کمیٹیاں بنانا لازم ہیں۔ اس ضمن میں اب تک صوبائی محتسب کی جانب سے سات سو نوٹسسز بھجوائے گئے ہیں، جن میں سے صرف 243 کمیٹیاں ہی بنائی جا سکیں، جن میں 185 سرکاری جبکہ 58 غیر سرکاری اداروں میں بنی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:عورت پر بلاجواز تبصرہ کرنے سے گریز کریں!

ہراسانی کے واقعات کو روکنے کے لیے یو این وومن اور صوبائی محتسب کی جانب سے کچھ عرصہ قبل ان کمیٹیوں کے لیے ہراسانی ٹول، یعنی ایک کتابچہ جاری کیا گیا ہے، جس کا مقصد کام کرنے والی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح اس کتابچہ میں خواتین کی رہنمائی کے لیے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح شکایت درج کرنی ہے اور کس طرح درج شکایات پر پیش رفت کرنی ہے۔

دوسری جانب صوبے میں خواتین کے حقوق اور ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم دہ ہوا لور،جو خواتین اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں کے مطابق سال 2017 میں اس کے پاس 80 خواتین اور دو خواجہ سراوں نے ہراسانی سے متعلق شکایات درج کیں۔ سال 2018 میں یہ تعداد 50 ہو گئی۔ جبکہ سال 2019  میں یہ تعداد کم ہوکر 20 تک ہو گئی۔

تنظیم کی سربراہ شوانہ شاہ کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں کمی کی وجہ ہراسانی کے واقعات میں کمی نہیں بلکہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خواتین ہراسانی کے واقعات سامنے نہیں لا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تعداد مزید کم ہوتی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:پاکستان میں جنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے

پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا کہان ہے کہ  یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس کو گولڈ میڈل دینے کے لیے ایک لاکھ روپے اور ڈنر کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے وہی گولڈ میڈل کی حقدار تھی۔ اب جب معاملہ رپورٹ کر دیا گیا ہے تو بجائے انصاف کے اس کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔

یہی وجوہات ہیں کہ خیبرپختونخوا، جو ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا، میں خواتین کو خودمختاری دینے، آگے بڑھنے اور فیصلہ سازی میں شریک کرنے کے بجائے پاؤں کی جوتی ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ اگر اس سوچ کا سدباب نہ ہوا تو یہ معاشرہ مزید پستی کا شکار ہوسکتا ہے۔ مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ، بس اسی امید کے سہارے ہم بھی معاشرے کی بہتری کے انتظار میں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں