ضروری کام کی غرض سے گھر سے نکلنے والی لڑکیاں ہوں یا ذہنی تھکان دور کرنے کے لیے کچھ وقت کے لیے یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں آئی سہیلیاں، لڑکوں کی نظروں اور فقروں سے کوئی وجود زن محفوظ نہیں۔
اشتہار
لڑکیوں کو دیکھتے ہی مسلسل گھورنے کے علاوہ ایک آدھ فقرہ کسنا تو لڑکے اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ گھر والی ساتھ بھی ہو تب بھی بازار یا پارک میں دوسری عورتوں کو گھورنا مردوں کی عادت بن چکی ہے۔
اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے لباس پر شہوانی تبصرہ کرنا، مرد ساتھی اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنے کے وہ واقعات ہیں جن کی اب وہ عادی ہو چکی ہیں۔
ان واقعات کو اب رپورٹ کرنا تو دور کی بات، ہراسانی کی فہرست میں شامل کرنا بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بالخوصوص خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں اور دفاتر میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ واقعات جب تک جرم نہ بن جائیں منظر عام پر یا تو آتے نہیں یا پھر لوگ کیا کہیں گے؟ گھر والے کیا سوچیں گے؟ کیا میں پھر گھر سے باہر نکل پاوں گی؟ کیا معاشرہ میرے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف میرا ساتھ دے گا؟ یا اسے میرے ہی دامن پر لگا داغ سمجھ کر ساری عمر کا روگ بنا دے گا، جیسے خدشات کی بنا پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ یہی مصلحت بھری خاموشی بالآخر غیرت کے نام پر قتل اور خودکشی جیسی خبروں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
خیبر پختونخوا میں کام کرنے کی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے عزم ظاہر کیے جانے کے بعد بھی صوبائی محتسب کی تعیناتی میں نو سال کی تاخیر ہوئی۔ چلو خیر دیر آید درست آید۔ اس ادارے کے فعال ہونے کے بعد اب تک 77 درخواستیں موصول بھی ہو چکی ہیں، جن میں 35 درخواستیں براہ راست جنسی ہراسانی کے زمرے میں شامل کی گئی ہیں۔
ہراسانی سے متعلق موصول درخواستوں میں سرکاری دفاتر، جامعات، پرائیویٹ دفاتر جن میں این جی اوز بھی شامل ہیں میں کام کرنے والی خواتین کی شکایات شامل ہیں جبکہ ایک مرد نے بھی انصاف کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ صوبے میں موجود ہراسانی کے قوانین کے مطابق تمام سرکاری، نجی ادارے، جامعات محکموں کے اندر ہی ہراسانی سے متعلق انکوائری کمیٹیاں بنانا لازم ہیں۔ اس ضمن میں اب تک صوبائی محتسب کی جانب سے سات سو نوٹسسز بھجوائے گئے ہیں، جن میں سے صرف 243 کمیٹیاں ہی بنائی جا سکیں، جن میں 185 سرکاری جبکہ 58 غیر سرکاری اداروں میں بنی ہیں۔
ہراسانی کے واقعات کو روکنے کے لیے یو این وومن اور صوبائی محتسب کی جانب سے کچھ عرصہ قبل ان کمیٹیوں کے لیے ہراسانی ٹول، یعنی ایک کتابچہ جاری کیا گیا ہے، جس کا مقصد کام کرنے والی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح اس کتابچہ میں خواتین کی رہنمائی کے لیے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح شکایت درج کرنی ہے اور کس طرح درج شکایات پر پیش رفت کرنی ہے۔
دوسری جانب صوبے میں خواتین کے حقوق اور ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم دہ ہوا لور،جو خواتین اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں کے مطابق سال 2017 میں اس کے پاس 80 خواتین اور دو خواجہ سراوں نے ہراسانی سے متعلق شکایات درج کیں۔ سال 2018 میں یہ تعداد 50 ہو گئی۔ جبکہ سال 2019 میں یہ تعداد کم ہوکر 20 تک ہو گئی۔
تنظیم کی سربراہ شوانہ شاہ کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں کمی کی وجہ ہراسانی کے واقعات میں کمی نہیں بلکہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خواتین ہراسانی کے واقعات سامنے نہیں لا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تعداد مزید کم ہوتی جارہی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا کہان ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس کو گولڈ میڈل دینے کے لیے ایک لاکھ روپے اور ڈنر کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے وہی گولڈ میڈل کی حقدار تھی۔ اب جب معاملہ رپورٹ کر دیا گیا ہے تو بجائے انصاف کے اس کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
یہی وجوہات ہیں کہ خیبرپختونخوا، جو ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا، میں خواتین کو خودمختاری دینے، آگے بڑھنے اور فیصلہ سازی میں شریک کرنے کے بجائے پاؤں کی جوتی ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ اگر اس سوچ کا سدباب نہ ہوا تو یہ معاشرہ مزید پستی کا شکار ہوسکتا ہے۔ مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ، بس اسی امید کے سہارے ہم بھی معاشرے کی بہتری کے انتظار میں ہیں۔
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔