خواتین ناقابل تردید طور پر بہتر رہنما ہوتی ہیں، باراک اوباما
18 دسمبر 2019رواں ہفتے باراک اوباما نے سنگاپور میں ایک لیڈرشپ ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،'' دنیا بھر کے ممالک میں اگر خواتین کو قیادت سونپ دی جائے تو حالات میں نمایاں بہتری نظر آئی گی۔‘‘ باراک اوباما نے تاہم عمر رسیدہ مردوں کو رستے سے ہٹ جانے کی جو بات کی وہ بھی غور طلب ہے۔
باراک اوباما امریکا کے 44 ویں صدر رہ چُکے ہیں۔ ایک ڈیموکریٹ لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر کی حیثیت سے امریکا کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اوباما سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور اور حقوق انسانی، خاص طور سے استحصال کی شکار اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے ایک نمایاں علم بردار کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ اُن کی اپنی نجی زندگی بھی کافی حد تک اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خواتین کے حقوق اور اُن کے مقام کو کتنا بلند سمجھتے ہیں۔
اوباما نے اپنے حالیہ بیان میں جہاں خواتین کی اہمیت اور ان کی صلاحیتوں کا جس انداز میں بھرپور اقرار کیا وہاں اُن کے مکمل بیان سے، اس کے سیاسی ہونے کی شدید بوُ بھی آئی۔ باراک اوباما نے یہاں تک کہا،''مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر کرہ ارض پر بسنے والی تمام اقوام کی قیادت دو سال کے لیے خواتین کو دے دی جائے تو تمام تر معاملات، بشمول معیار زندگی اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
گزشتہ برس امریکا میں دو مسلم خواتین کانگریس کی رُکن کے طور پر منتخب ہوئیں۔ ان دونوں کے ناموں نے تمام مسلم دنیا میں دھوم مچا دی۔ الہان عمر اور رشیدہ طلیب دونوں کا تعلق تارکین وطن گھرانوں سے ہے۔ الہان عمر صومالی نژاد اور رشیدہ طلیب فلسطینی نژاد ہیں۔ یہ دونوں خواتین ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت سے کانگریس کی رُکن منتخب ہوئیں۔ یہ دونوں موجودہ امریکی صدر اور ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے خلاف سرگرم ہیں۔
جب اوباما امریکی صدر منتخب ہوئے تھے، تب لیندا صرصور نامی ایک اور فلسطینی نژاد خاتون میڈیا کی توجہ کا باعث بنی تھیں۔ ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما نے لیندا صرصور کو خود متعدد بار وائٹ ہاؤس مدعو کیا تھا اور انہیں 'تبدیلی کی ہیروئن‘ کے تمغے سے بھی نوازا تھا۔
امریکی شہر بروکلن میں پیدا ہونے والی لیندا صرصور کے والدین کا تعلق فلسطینی علاقے غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ کے البیرہ گاؤں سے تھا۔ لیندا صرصور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔
باراک اوباما نے یقیناً مذکورہ خواتین کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کا مقصد کیا واقعی امریکا میں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح تمام شعبوں سے لے کر سیاست میں مردوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی کوشش تھا، یا ان خواتین کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا تھا؟
اگر باراک اوباما جیسے روشن خیال رہنما اور دانشور امریکی معاشرے میں بنیادی تبدیلی لانے میں ناکام رہے تو دیگر ممالک کے مرد رہنماؤں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خواتین کی صلاحیتوں اور جائز مقام کو پہچانتے ہوئے انہیں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع دیں گے، ایک افسانوی اور تصوراتی بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آخر امریکا اپنی ڈھائی سو سال سے زائد عرصے پر محیط تاریخ میں ایک بار بھی کسی خاتون کو منصب صدارت پر کیوں فائز نہ کر سکا؟ جمہوریت کی علامت اور حقوق انسانی کا چیمپیئن مانا جانے والا یہ ملک وہ بھی نہ کر سکا جو اسلامی دنیا پر نمودار ہونے والے نسبتاً نو عمر معاشرے پاکستان میں ممکن ہو گیا۔ ساتھ ہی بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ترکی کو بھی اس سلسلے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو باراک اوباما کے حالیہ بیان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی 'خواتین ناقابل تردید طور پر بہتر قائدین ہیں‘۔ یہ بات تو ایک ایسی حقیقت ہے جسے مرد تو کجا بہت سی ایسی خواتین جو مردوں کے بل بوتے پر اقتدار میں آجاتی ہیں، تک ماننے سے انکار کرتی ہیں۔
رہ گئی بات اوباما کے بیان کے دوسرے حصے کی یعنی'معمر مردوں کو رستے سے ہٹ جانا چاہیے‘۔ میری نگاہ میں یہ ایک ناپختہ بیان ہے کیوں کہ مردوں کی عمر کا اُن کے رویے سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ صفات ان کی سرشت میں ہیں، اُنہیں صرف تربیت کے ذریعے ہی صحیح کیا جا سکتا ہے۔ بیان بازیوں سے نہیں۔