1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین ڈاکٹرز کی بے روزگاری: اسباب کیا ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
17 ستمبر 2023

گیلپ پاکستان اور ’پرائیڈ‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کر رہیں۔

لیڈی ڈاکٹر ایک مریضہ کا علاج کرتے ہوئے۔
تصویر: Privat

34 سالہ کنول عباد نے بہت محنت سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی تعلیم حاصل کچھ برس پہلے مکمل کی، لیکن پھر پہلے شادی اور بعد میں امور خانہ داری کی وجہ سے وہ اپنا پروفیشن نہیں اپنا سکیں۔

شادی کے بعد اپنے پروفیشن کی جاب ان کے لیے صرف ایک خواب ہی رہ گیا۔ انہوں نے ڈی ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے اپنے سسرالیوں کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ مجھے کام کرنے کی اجازت دیں لیکن کام کرنے کی اجازت نہیں ملی اور بچوں کی پیدائش کے بعد میں گھر کے کام کاج میں لگ گئی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ میری ساری محنت، سرمایہ اور قیمتی وقت ضائع ہوا۔‘‘

کنول کے خیال میں ثقافتی اور سماجی اقدار خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

یہ صرف کنول کی ہی کہانی نہیں بلکہ پاکستان میں کئی ایسی خواتین ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا توجاب نہیں کرتیں یا پھر تعلیم کو آخری مراحل میں ترک کر دیتی ہیں۔

گیلپ پاکستان اور 'پرائیڈ‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 فیصد  خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کر رہیں۔

اس تحقیق نے اپنے نتائج کی بنیاد سروے 2020-21 پر رکھی ہے اور لیبر مارکیٹ پر پاکستانی ادارہ شماریات کے ڈیٹا کو پیش نظر رکھ کر اس کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تحقیق میں خصوصی توجہ خواتین میڈیکل گریجویٹس پر دی گئی ہے۔

گیلپ پاکستان اور 'پرائیڈ‘ کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کر رہیں۔تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

اس تحقیق کے دوران 99 ہزار گھرانوں سے ڈیٹا جمع کیا گیا اور جس کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ 36 ہزار خواتین ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا مختلف وجوہات کی بنیاد پر لیبر فورس کا حصہ بننا نہیں چاہتیں۔اس سروے کے مطابق ملک میں خواتین ڈاکٹرز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چار ہزار نو سو چوہتر ہے۔

اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کرنے والی ڈاکٹر سبین عابد خان کا کہنا ہے کہ خواتین کے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری ہے، جس کی وجہ سے ان کی پروفیشنل گروتھ متاثر ہوتی یا پھر انہیں اپنے پروفیشن میں کام کرنے کا بھرپور موقع نہیں مل پاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ بہت مشکل ہے جبکہ خواتین کے لیے شفٹوں کے حوالے سے بہت زیادہ چوائس نہیں ہے، کیونکہ ان پر گھر کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑتی ہے اس لیے شفٹوں میں جاب کرنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

تاہم کراچی ڈینٹل اینڈ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی طالبہ سیدہ تحریم شہزاد کا کہنا ہے کہ مردوں کی سوچ خواتین کی پروفیشنل گروتھ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے کے قریب ہوں، اس کے بعد ہاؤس جاب ہوگی لیکن مجھے اور میری کلاس فیلوز کو یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ آیا ہمیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد کام کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔‘‘

سیدہ تحریم شہزاد کے مطابق دور دراز علاقوں میں تقرری اور مرد اور عورت کا ساتھ کام کرنا مختلف عوامل میں سے چند ایک ہیں، جن کی وجہ سے پاکستانی خاوند اپنی بیویوں کو نوکری کرنے نہیں دیتے۔ سیدہ تحریم شہزاد کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے خواتین میں اسپیشلائزیشن کی طرف بھی جانے کا بہت زیادہ رجحان نہیں ہے: ''آپ کو زیادہ تر خواتین گائناکالوجسٹ یا چائلڈ اسپیشلسٹ ملیں گی کیونکہ ان شعبوں میں مرد ڈاکٹرز یا اسٹاف کی نسبتاﹰ موجودگی کم ہوتی ہے. لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ انتہائی با صلاحیت خواتین جو دماغی یا دوسرے امراض کی ماہر بننا چاہتی ہیں وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔‘‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ بہت سارے والدین جب بچیوں کو میڈیکل کالجز میں داخلہ دلاتے ہیں تو ان کے ذہن میں پروفیشنل گروتھ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر اشرف نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں یہ رجحان ہے کہ والدین بچیوں کو میڈیکل کالجز میں اس لیے بھی داخل کرواتے ہیں ان کی بچیوں کو بعد میں اچھے رشتے مل جائیں گے۔‘‘

ڈاکٹر اشرف نظامی کا مزید کہنا تھا ہسپتالوں کا مجموعی ماحول بھی ایسی خواتین ڈاکٹرز کی پروفیشنل گروتھ میں رکاوٹ ہے۔تصویر: PPI/ZUMAPRESS/picture alliance

ڈاکٹر اشرف نظامی کا مزید کہنا تھا ہسپتالوں کا مجموعی ماحول بھی ایسی خواتین ڈاکٹرز کی پروفیشنل گروتھ میں رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں سماجی اور ثقافتی اقدار بہت مضبوط ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے لیکن  سابق وزیراعظم عمران خان  کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ اس مسئل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جن خواتین کی پروفیشنل پریکٹس میں شادی یا معاملات کی وجہ سے وقفہ آ جاتا ہے ان کو اجازت دی جانا چاہیے کہ وہ کچھ برسوں بعد اپنا پروفیشن جوائن کریں۔‘‘

تاہم ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ یہ وقفہ بہت طویل نہیں ہو سکتا: ''اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیکل سائنس میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ نئی دوائیں اور ویکسینز آ رہی ہیں، طویل وقفے کی صورت میں کسی خاتون ڈاکٹر کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ اتنے لمبے عرصے کی رخصتی کا ازالہ کر سکے۔‘‘

ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ بہت ساری بچیاں اسکول میں ہی یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ انہیں میڈیکل سائنس پڑھنا ہے لیکن اس پروفیشن کے حوالے سے انہیں چیلنجز کا علم نہیں ہوتا اور انہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ رہائش سمیت اس پروفیشن میں کئی چیلنجیز ہیں۔

’صحافی صحافی ہوتا ہے، مرد یا عورت نہیں‘

03:59

This browser does not support the video element.

سابق مشیر صحت کا خیال ہے کہ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں، جنہیں حل نہیں کیا جا سکے: ''ہم نے اپنے دور حکومت میں میڈیکل انشورنس متعاراف کرائی، جس سے نئے ڈاکٹرز کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور بہت ساری خواتین نے نوکریاں بھی حاصل کیں۔ زیادہ مواقع، لچکدار شفٹیں اور طویل رخصتی کی اجازت سمیت کئی ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جن سے یہ مسائل حل کیے جا سکیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں